22. باب: اہل کتاب کے ذبیحے اور ان ذبیحوں کی چربی کا بیان۔
(22) Chapter. The animals slaughtered by the people of the Scripture (Jews and Christians) and their fat, whether those people were at war with the Muslims or not.
وقوله تعالى: اليوم احل لكم الطيبات وطعام الذين اوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم سورة المائدة آية 5.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ سورة المائدة آية 5.
اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «اليوم أحل لكم الطيبات وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم» کہ ”آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ہیں اور ان لوگوں کا کھانا بھی جنہیں کتاب دی گئی ہے تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔“ زہری نے کہا کہ نصاریٰ عرب کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم سن لو کہ وہ (ذبح کرتے وقت) اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیتا ہے اسے نہ کھاؤ اور اگر نہ سنو تو اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے حلال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کفر کا علم تھا۔ علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی جاتی ہے۔ حسن اور ابراہیم نے کہا کہ غیر مختون (اہل کتاب) کے ذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مغفل رضي الله عنه، قال:" كنا محاصرين قصر خيبر فرمى إنسان بجراب فيه شحم فنزوت لآخذه، فالتفت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم فاستحييت منه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک تھیلا پھینکا جس میں (یہودیوں کے ذبیحہ کی) چربی تھی۔ میں اس پر جھپٹا کہ اٹھا لوں لیکن مڑ کے جو دیکھا تو پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر شرما گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (آیت میں) «طَعامهم» سے مراد اہل کتاب کا ذبح کردہ جانور ہے۔
Narrates `Abdullah bin Mughaffal: While we were besieging the castle of Khaibar, Somebody threw a skin full of fat and I went ahead to take it, but on looking behind, I saw the Prophet and I felt shy in his presence (and did not take it).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 67, Number 416
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5508
حدیث حاشیہ: قال الزھری لا باس بذبیحۃ نصاریٰ العرب وان سمعتہ یھل لغیر اللہ فلا تاکل وان لم تسمعہ فقد احلہ اللہ لکم وعلم کفرھم (فتح) یعنی عرب کے نصاریٰ کا ذبیحہ درست ہے ہاں اگر تم سنو کہ اس نے ذبح کے وقت غیراللہ کا نام ہے تو پھر اس کا ذبیحہ نہ کھاؤ ہاں اگر نہ سنا ہو تو اس کا ذبیحہ باوجود ان کے کافر ہونے کے حلال کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5508
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5508
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ذبیحے کی چربی ہمارے لیے حلال ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے لیے اس چربی سے نفع حاصل کرنے کو مباح رکھا، اس لیے جو جانور اہل کتاب ذبح کریں اور ذبح کرتے وقت اس پر بسم اللہ پڑھی ہو تو وہ جانور اور اس کی چربی ہمارے لیے حلال ہے اگرچہ وہ اہل حرب ہوں جیسا کہ مذکورہ واقعے سے پتا چلتا ہے۔ لیکن اگر انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام سے ذبح کیا ہو تو ہمارے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5508
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3153
´اگر کھانے کی چیزیں کافروں کے ملک میں ہاتھ آ جائیں` «. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مُحَاصِرِينَ قَصْرَ خَيْبَرَ فَرَمَى إِنْسَانٌ بِجِرَابٍ فِيهِ شَحْمٌ فَنَزَوْتُ لِآخُذَهُ فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ . . .» ”. . . عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ کسی شخص نے ایک کپی پھینکی جس میں چربی بھری ہوئی تھی۔ میں اسے لینے کے لیے لپکا، لیکن مڑ کر جو دیکھا تو پاس ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3153]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3153 باب: «بَابُ مَا يُصِيبُ مِنَ الطَّعَامِ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے کی طرف نشاندہی فرمائی کہ کھانے پینے کی چیزیں مال غنیمت سے قبل استعمال کرنا درست ہے اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «الجمهور على جواز أحد الغانمين من القوت وما يصلح به و كل طعام يعتاد اكله عموما و كذالك علف الدواب سواء كان قبل القسمة أو بعدها بإذن الامام و بغير إذنه.»[فتح الباري، ج 6، ص: 314] ”یعنی جمہور کا یہ فتوی ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کو غنیمت پانے والے قبل از تقسیم کے کھا سکتے ہیں، اسی طرح چارا ہے اسے بھی اپنے جانوروں کو اسی طرح کھلا پلا سکتے ہیں چاہے وہ امام کی اجازت سے ہو یا بغیر اجازت سے۔“ لیکن حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بایں الفاظ موجود نہیں ہیں، لیکن اگر غور کیا جائے تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں لپکا اس چمڑے کے برتن کی طرف جس میں چربی تھی، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اب یہاں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت کچھ اس طرح سے ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو قبل از تقسیم اس چیز کی طرف لپکتے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ نہ کہا، تو لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اس امر کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وموضع الحجة عدم إنكار النبى صلى الله عليه وسلم، بل فى رواية مسلم ما يدل على رضاه فانه فيه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متبسما و زاد أبوداؤد الطيالسي فى آخره ”فقال هولك“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 315] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں انکار نہ کرنا یہ حجت کی دلیل ہے، بلکہ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے الفاظ ہیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے۔“ اور أبوداؤد طیالسی میں آخری الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ آپ کا ہوا۔“ ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ میں فرماتے ہیں: «قال عياض: أجمع العلماء على جواز أكل طعام الحربين ما دام المسلمون فى دار الحرب على قدر حاجتهم، ولم يشترط أحد من العلماء استئذان الامام إلا الزهري.»[مرقاة المفاتيح، ج 7، ص: 576] ”قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس جواز پر اجماع ہے کہ مسلمان دار الحرب میں اپنی ضرورت کے مطابق کھا سکتے ہیں اور کسی اہل علم نے اس پر کسی قسم کی کوئی شرط عائد نہیں کی کہ اس کے لیے امام کی اجازت ضروری ہے سوائے امام زہری رحمہ اللہ کے۔“ لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ خاموشی دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت پر محمول تھی جس کے مختلف الفاظ مختلف کتب احادیث میں مرقوم ہیں۔ فائدہ: مندرجہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اسے اصطلاحا ”تقریری“ حدیث کہا جاتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یا سنت (اہل علم کے نزدیک یہ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے مترادف ہیں) چاہے وہ قولی ہو، یا فعلی، یا تقریری تینوں اقسام بالاتفاق حجت ہیں قطعیت کے ساتھ، ائمہ حدیث ان تینوں اقسام کو حجت قرار دیتے ہیں اور ان تینوں کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ ہے۔ ① امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «السنن تنقسم ثلاثة أقسام، قول من النبى صلى الله عليه وسلم، و فعل منه عليه السلام، و شيئ رآه و علمه فأقر عليه.»[الأحكام فى أصول الأحكام، ج 1، ص: 178] ”یعنی سنن کی تین اقسام ہیں: نبی کا قول، نبی کا فعل اور (تقریر) جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی اسے جاننا اور برقرار رکھنا۔“ ② ملا احمد جیون کی نور الانوار میں لکھا ہے: «السنة: تطلق على قول الرسول صلى الله عليه وسلم وفعله و سكوته و على أقوال الصحابة و أفعالهم.»[نور الانوار، ج 1، ص: 179] ”یعنی سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور خاموشی پر ہوتا ہے۔“ ③ امام صالح بن طاہر الجزائری فرماتے ہیں: «وأما السنة فتطلق فى الأكثر على ما أضيف إلى النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير فهي مرادفة للحديث عند علماء الأصول.»[توضية النظر، ج 3، ص: 3] ”سنت کا اطلاق اکثر طور پر اس چیز پر ہوتا ہے جس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو۔ خواہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر ہو، یہ حدیث کے مترادف ہے علماء اصول کے نزدیک۔“ ④ حجاج الخطیب لکھتے ہیں: «كل ما أشرع عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير أو صفة خلقية أو خلقية أو سيرة سواءا كان ذالك قبل البعثة . . ..»[السنة قبل التدوين، ص: 16] ”سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال و افعال و تقریرات اور صفات خلقیہ و خلقیہ محاسن و شمائل اور سیرت سب کے مجموع کا نام ہے۔“ ⑤ امام جرجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «”السنة“ شريعة مشترك بين ما صدر عن النبى صلى الله عليه وسلم من قول أو فعل أو تقرير وبين ما واظب النبى صلى الله عليه وسلم عليه بلا وجوب.»[التعريفات، ص: 108] ”شریعت میں سنت کا لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل، تقریر اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجوب ہمیشگی اختیار فرمائی کے درمیان مشترک ہے۔“
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4440
´یہود کے ذبیحے کا بیان۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن چربی کی ایک مشک لٹکی ہوئی ہاتھ آئی، میں اس سے لپٹ گیا، میں نے کہا: اس میں سے میں کسی کو کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4440]
اردو حاشہ: (1) اہل کتاب، یعنی یہودی اور عیسائی لوگوں کے ذبیحے کے متعلق حکم شریعت یہ ہے کہ اسے کھایا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ﴾(المائدة: 5:5)”اہل کتاب (یہود و نصاری) کا طعام تمہارے لیے حلال ہے۔“ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: ﴿طَعَامُهُمْ، ذَبَائِحُهُمْ﴾ یعنی اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے طعام سے مراد ان کے ذبح شدہ جانور ہیں۔ دیکھئے: (صحیح البخاري الذبائح و الصید، قبل حدیث: 5508) (2) ترجمۃ الباب (عنوان) کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ پھینکے گئے تھیلے میں جو چربی تھی وہ یقینا کسی ذبح شدہ جانور ہی کی تھی اور ظاہر ہے اسے کسی یہودی ہی نے ذبح کیا تھا۔ اگر ان کا ذبح شدہ جانور حلال نہ ہوتا تو اس جانور کی چربی بھی حلال نہ ہوتی، اور صحابیٔ رسول بھی اسے نہ اٹھاتے، رسول اللہ ﷺ بھی موجود تھے، وہ بھی منع فرما دیتے، لیکن بجائے روکنے کے آپ علیہ السلام اسے دیکھ کر مسکرا دئیے جس سے اس چربی کے حلال ہونے کا پتا چلتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ اہل کتاب کے ساتھ جنگ ہو رہی ہو تب بھی ان کا ذبیحہ اور اس کے، تمام اجزاء حلال ہیں۔ (3) یہودیوں کی بدکرداری کی وجہ سے گائے اور بکری کی کچھ چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تھی، اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اسے اٹھا لیا کیونکہ وہ یہودیوں کے لیے حرام تھی، نہ کہ مسلمانوں کے لیے، اور رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر ان کے اس عمل کی توثیق فرما دی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو مجھے حیا آ گئی، یعنی میں شرمندہ سا ہو گیا۔ دیکھئے (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3153، و صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 1772) (4)”مسکرا رہے تھے“ میری حرص دیکھ کر۔ اسے تقریری حدیث کہا جاتا ہے۔ اور یہ بالاتفاق حجت شرعی ہے۔ یہ قطعی طور پر نا ممکن ہے کہ شرعاً ایک کام ناجائز اور حرام ہو اور نبی ﷺ اسے دیکھ کر مسکرائیں یا خاموش رہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4440
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2702
´دشمن کے ملک میں (غنیمت میں) غلہ یا کھانے کی چیز آئے تو کھانا جائز ہے۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے دن چربی کا ایک مشک لٹکایا گیا تو میں آیا اور اس سے چمٹ گیا، پھر میں نے کہا: آج میں اس میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں دوں گا، پھر میں مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری اس حرکت پر کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2702]
فوائد ومسائل: فقہائے حدیث بیان کرتے ہیں کہ مطعومات (کھانے پینے والی چیزوں) میں سے خمس نہیں نکالا جاتا۔ اور مجاہدین کو حسب حاجت کھا پی لینے کی رخصت ہے۔ البتہ بہت زیادہ مقدار میں حاصل ہونے والا غلہ بعد از استعمال بطور غنیمت تقسیم ہوگا۔
2۔ خمس کا مسئلہ آگے باب۔ 158 میں آرہا ہے۔
3۔ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔ اور ان کی چربی بھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2702
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4606
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کے دن ہماری طرف ایک چمڑے کی تھیلی پھینکی گئی، جس میں خوراک اور چربی تھی، میں اس کو اٹھانے کے لیے جھپٹا میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے تو میں آپﷺ سے شرما گیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4606]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالحرب میں، میدان جنگ سے اٹھائی ہوئی خوراک کا کھانا جائز ہے، لیکن اس کو دارالسلام میں ساتھ لانا جائز نہیں ہے، جمہور کے نزدیک کھانے کی چیز کے استعمال کے لیے امام سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے، لیکن امام زہری کے نزدیک اجازت لینا ضروری ہے، اس طرح دارالحرب میں سواریوں کا اور لباس کا استعمال جائز ہے، جنگی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے، لیکن ان کو ملکیت میں نہیں لیا جا سکتا اور اوزاعی کے سوا کسی کے نزدیک اس کے لیے امام سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4606
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3153
3153. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے ایک توشہ دان پھینکا جس میں چربی تھی۔ میں اسے لینے کے لیے جلدی سے لپکا لیکن میں نے مڑ کر دیکھا توپاس ہی نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3153]
حدیث حاشیہ: یہیں سے ترجمہ باب نکلا کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3153
3153. حضرت عبداللہ بن مغفلؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ ہم خیبر کے محل کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ کسی شخص نے ایک توشہ دان پھینکا جس میں چربی تھی۔ میں اسے لینے کے لیے جلدی سے لپکا لیکن میں نے مڑ کر دیکھا توپاس ہی نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ میں اس وقت شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3153]
حدیث حاشیہ: 1۔ دوران جنگ میں کھانے پینے والی اشیاء ہاتھ لگیں جو جلدخراب ہونے والی ہوں توجمہور کا فتوی ہے کہ ایسی چیز یں مجاہدین تقسیم سے پہلے لے سکتے ہیں اور انھیں اپنے استعمال میں لا سکتے جانوروں کے چارے وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے اسے بھی اجازت کے بغیر جانوروں کو کھلایا پلایا جا سکتا ہے۔ 2۔ عبد اللہ بن مغفل ؓ کو طبعی طور پر شرم آگئی البتہ رسول اللہﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4214
4214. حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم خیبر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے ایک تھیلا پھینکا جس میں چربی تھی۔ میں اسے اٹھانے کے لیے لپکا لیکن میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ دیکھ رہے ہیں، اس لیے میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4214]
حدیث حاشیہ: 1۔ غنیمت کا مال تقسیم سے پہلے لینا جائز نہیں مگر کھانے پینے کی چیزیں لی جاسکتی ہیں۔ چربی کے بھرے ہوئے تھیلے کو اس انداز سے لینا اس امر پر دلالت کرتا تھا کہ ان کا جہاد اسی مال واسباب کے لیے تھا، اس لیے حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کو شرم آگئی اور اسے ترک کردیا۔ 2۔ اس حدیث کے متعلق ہماری گزارشات پہلے ذکر ہوچکی ہیں۔ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3153)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4214