(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، ان رجلا كان ياكل اكلا كثيرا، فاسلم فكان ياكل اكلا قليلا، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن المؤمن ياكل في معى واحد والكافر ياكل في سبعة امعاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَأْكُلُ أَكْلًا كَثِيرًا، فَأَسْلَمَ فَكَانَ يَأْكُلُ أَكْلًا قَلِيلًا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب بہت زیادہ کھانا کھایا کرتے تھے، پھر وہ اسلام لائے تو کم کھانے لگے۔ اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔
Narrated Abu Huraira: A man used to eat much, but when he embraced Islam, he started eating less. That was mentioned to the Prophet who then said, "A believer eats in one intestine (is satisfied with a little food) and a Kafir eats in seven intestines (eats much). "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 65, Number 309
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5397
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی شرح میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے۔ پس مومن کی شان یہی ہے کہ کھانا کم کھانا ایمان کی عمدہ سے عمدہ خصلت ہے اورزیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔ (حجة اللہ البالغة)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5397
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5397
حدیث حاشیہ: (1) علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سات آنتوں سے مراد سات صفات ہیں جو کافر میں پائی جاتی ہیں۔ وہ طبعی خواہش، شہوت نفس، آنکھ کی شہوت، منہ کی شہوت، کان کی خواہش، ناک کی چاہت اور بھوک کی خواہش ہیں۔ یہ آخری (بھوک کی خواہش) ضروری ہے جس میں مومن کھاتا ہے اور کافر سب میں کھاتا ہے۔ (عمدة القاري: 405/14)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ کھانے کے معاملے میں لوگوں کے تین طبقے ہیں: ٭ جو ہر قسم کا کھانا چٹ کر جاتے ہیں، خواہ انہیں ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ایسا کام جہالت پیشہ لوگوں کا ہے۔ ٭ ایک گروہ ہے جو بھوک کے وقت کھاتے ہیں اور اتنا کھاتے ہیں جس سے بھوک ختم ہو جائے۔ ٭ کچھ لوگ ایسے ہیں جو شہوت نفس کو توڑنے کے لیے بھوکے رہتے ہیں اور صرف جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے کچھ کھا لیتے ہیں۔ غالباً حدیث سے دوسرا طبقہ مراد ہے کیونکہ مومن کی شان یہی ہے اور پہلا طبقہ تو کافروں کا ہے۔ (فتح الباري: 699/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5397
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 409
´مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے` «. . . 367- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يأكل المسلم فى معى واحد، والكافر فى سبعة أمعاء.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 409]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5396، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ عام طور پر کھانا تھوڑا کھانا چاہئے لیکن بعض اوقات ضرورت کے مطابق پیٹ بھر کر کھانا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: الموطأ حدیث: 119 ➋ کھانے پینے میں اسراف اور غیر ضروری اخراجات اچھا کام نہیں ہے بلکہ کوشش کرکے کفایت شعاری کو اپنانا چاہئے تاہم ضرورت کے وقت مثلاً مہمان اور دوست وغیرہ کی میزبانی اور جائز خواہش کے مطابق بہترین کھانے تیار کرکے پیش کرنا اور خود کھانا بھی صحیح ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مہمانوں کے لئے بچھڑا ذبح کرکے اس کا گوشت بھون کر پیش کردیا تھا۔ ➌ جو چیز نقصان دہ ہو اُس سے بچنا ضروری ہے مثلاً شوگر کے مریض کے لئے چینی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ ➍ کم کھانے سے، اللہ کے فضل وکرم سے صحت اچھی رہتی ہے۔ ➎ کافر بہت زیادہ کھاتا اور پیتا ہے۔ دیکھئے: الموطأ حدیث: 445 ➋ سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا: آدمی کے پیٹ سے زیادہ بری تھیلی کوئی نہیں جسے بھرا جاتا ہے۔ آدمی کے لئے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ اگر کھانا پینا ضروری ہے تو ایک تہائی کھانے کے لئے، ایک تہائی پینے کے لئے اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے چھوڑنا چاہیے۔ [سنن الترمذي: 2380 وقال: ”هٰذا حديث حسن صحيح“ أحمد 4/132 ح17318، دوسرا نسخه: 17186، وسنده حسن] ➐ اس حدیث میں ایک بہترین نکتہ یہ بھی ہے کہ دنیا صرف کھانے پینے اور آرام کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ اہل ایمان کے نزدیک رضائے الٰہی اول اور کھانا پینا ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 367
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 410
´مسلمان ایک آنت سے پیتا ہے` «. . . 445- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أضاف ضيفا كافرا، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة فحلبت فشرب حلابها، ثم أخرى فشربه ثم أخرى فشربه حتى شرب حلاب سبع شياه. ثم إنه أصبح فأسلم، فأمر له رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة فحلبت فشرب حلابها، ثم أمر له بأخرى فلم يستتمها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن المؤمن يشرب فى معى واحد، والكافر يشرب فى سبعة أمعاء.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کی میزبانی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، ایک بکری کا دودھ دوھا گیا تو اس (کافر) نے (سارا) دودھ پی لیا پھر دوسری کو دوھا گیا تو اس نے (سارا) پی لیا پھر تیسری کو دوھا گیا تو اس نے پی لیا۔ حتیٰ کہ سات بکریوں کا دودھ اس نے پی لیا پھر جب صبح ہوئی تو وہ مسلمان ہو گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ایک بکری کا دودھ نکالا گیا تو اس نے پی لیا پھر دوسری کا دودھ لایا گیا تو وہ پی نہ سکا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 410]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 2063، من حديث ما لك به، و من رواية يحي بن يحي . وجاء فى الأصل: ”يستمتها“]
تفقه: ➊ اسلام کافروں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے۔ ➋ اسلام کی دعوت دینے کے لئے کفار و مبتدعین کے ساتھ صحیح العقیدہ مسلمانوں کا تعلقات قائم کرنا پسندیدہ کام ہے۔ ➌ کافروں کا مطمع نظر دنیاوی زندگی، کھانا پینا اور مسلمانوں کو لوٹنا مارنا ہے۔ ➍ کافر کی دعوت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے کوئی شرعی یا جائز فائدہ حاصل ہو۔ ➎ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 367، البخاري 5396]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 445
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3256
´مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3256]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سات آنتوں میں کھانے سےمراد بہت زیادہ کھانا ہے۔
(2) حرص اور لالچ مومن کی شان کے لائق نہیں۔
(3) زیادہ پیٹ بھر کر کھانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے اسی قدر کھانا کھانا چاہیے جو آسانی سے ہضم ہو جائے۔
(4) مومن اللہ کانام لے کر کھاتا ہے اس لیے اس کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ کافر اللہ کانام لے کر نہیں کھاتا اس لیے اس کے کھانے میں برکت نہیں ہوتی اور کھانے میں اس کے ساتھ شیطان شریک ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3256
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5379
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک کافر مہمان ٹھہرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا، وہ دوہی گئی اور اس نے اس کا دودھ پی لیا، پھر دوسری دوہی گئی تو اس نے اس کا برتن بھی خالی کر دیا، پھر تیسری دوہی گئی، حتی کہ اس نے سات بکریوں کا دودھ پی لیا، پھر وہ مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ایک بکری دوہنے کا حکم دیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5379]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس قسم کا واقعہ کئی مسلمان ہونے والے کافروں کے ساتھ پیش آیا، ابو غزوان، جہجاہ غفاری، ابو بصرہ غفاری، نضلہ بن عمرو، ثمامہ بن اثال، قاضی عیاض اور امام نووی نے اس حدیث کا مصداق نضلہ بن عمرو کو قرار دیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر اس پر مطمئن نہیں ہے، (فتح الباري، باب المؤمن ياكل معي واحد: ج 9) ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5379
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5396
5396. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5396]
حدیث حاشیہ: حدیث کا مضمون بطور اکثر ہے نہ یہ کہ بہت کھانے والے کافر ہی ہوتے ہیں۔ بعض مسلمان بھی بہت کھاتے ہیں مگر کم کھانا ہی بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5396
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5396
5396. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5396]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کے معنی ہیں: کافر کی تمام تر حرص پیٹ بھرنا ہوتی ہیں، اس لیے وہ حیوانوں کی طرح کھاتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت کا حصول ہے، اس لیے وہ کم کھانے پر اکتفا کر کے صرف جسم اور روح کے رشتے کو قائم رکھتا ہے، کم کھانا ایمان کی عمدہ خصلت ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔ بہرحال مومن کو چاہیے کہ وہ بھوک مٹانے کے لیے کھائے اور تھوڑا کھانے پر قناعت کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5396