ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا اس حدیث کو ہم نے زہری سے سن کر یاد کیا، وہ سعید بن مسیب کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "In very hot weather delay the Zuhr prayer till it becomes (a bit) cooler because the severity of heat is from the raging of the Hell-fire.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 512
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:536
حدیث حاشیہ: نماز کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے کایہ بھی ایک سبب ہے کہ سخت گرمی میں نماز کی ادئیگی تکلیف کا باعث ہے جس کی وجہ سے خشوع خضوع اور اطمینان و سکون کا حصول دشوار ہوگا جو نماز کی اصل روح ہے۔ جیسا کہ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ جب عین دوپہر کے وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتے تو زمین اس قدر گرم ہوتی کہ اس کی گرمی سے بچنے کے لیے ہم کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔ واضح رہے کہ صلاۃ ظہر کی تاخیر اور اسے ٹھنڈا کرکے ادا کرنے کا حکم اس وقت ہے جب سخت گرمی ہو۔ اس بنا پر سردی کہ موسم میں نماز ظہر کو اول وقت ہی میں ادا کرنا مستحب ہے۔ (فتح الباري: 22/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 536
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 133
´موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنا` «. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب گرمی کی شدت ہو تو اس وقت نماز (ظہر) کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ (یعنی ذرا انتظار کر لو کہ، وقت ذرا ٹھنڈا ہو جائے) کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس (لینے کی وجہ) سے ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 133]
� لغوی تشریح: «فَأَبْرِدُوا» «إِبْرَاد» سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ٹھنڈے وقت میں داخل ہو جاؤ۔ «بِالصَّلَاةِ» سے مراد نماز ظہر ہے، یعنی نماز ظہر کو ٹھنڈے اور سرد وقت میں ادا کرو۔ «مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمُ» «فَيْح» کی ”فا“ پر فتحہ اور ”یا“ ساکن ہے۔ جہنم کی گرمی و حرارت کی لپیٹ، اس کے پھیلاؤ کی وسعت اور اس کی بھاپ۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی چاہیے۔ مگر اس تاخیر کی حد کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں ابوداود اور سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسم گرما میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے پانچ قدم تک ہو جاتا۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب فى المواقيت، حديث: 400، وسنن النسائي، المواقيت، باب آخر وقت الظهر، حديث: 504] ➋ علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ تمام ممالک کے لیے قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول بلد اور عرض بلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہو گا۔ بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے۔ ➌ علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیے میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا اور اس سائے میں اصل اور زائد دونوں سائے شمار ہوئے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 133