37. بَابُ إِذَا طَلَّقَهَا ثَلاَثًا ثُمَّ تَزَوَّجَتْ بَعْدَ الْعِدَّةِ زَوْجًا غَيْرَهُ فَلَمْ يَمَسَّهَا:
37. باب: جب کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی اور بیوی نے عدت گزار کر دوسرے شوہر سے شادی کی لیکن دوسرے شوہر نے اس سے صحبت نہیں کی۔
(37) Chapter. If a person divorces his wife thrice and she marries another man after the completion of her Idda but the second husband does not consummate his marriage with her.
Narrated `Aisha: Rifa`a Al-Qurazi married a lady and then divorced her whereupon she married another man. She came to the Prophet and said that her new husband did not approach her, and that he was completely impotent. The Prophet said (to her), "No (you cannot remarry your first husband) till you taste the second husband and he tastes you (i.e. till he consummates his marriage with you).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 238
● صحيح البخاري | 5265 | عائشة بنت عبد الله | لا تحلين لزوجك الأول حتى يذوق الآخر عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● صحيح البخاري | 5317 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● صحيح البخاري | 5261 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول |
● صحيح البخاري | 5260 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● صحيح البخاري | 2639 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● صحيح البخاري | 6084 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● صحيح البخاري | 5792 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● صحيح البخاري | 5825 | عائشة بنت عبد الله | لم تصلحي له حتى يذوق من عسيلتك |
● صحيح مسلم | 3531 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول |
● صحيح مسلم | 3529 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتها |
● صحيح مسلم | 3527 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● صحيح مسلم | 3526 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته |
● جامع الترمذي | 1118 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● سنن أبي داود | 2309 | عائشة بنت عبد الله | لا تحل للأول حتى تذوق عسيلة الآخر ويذوق عسيلتها |
● سنن النسائى الصغرى | 3436 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق الآخر عسيلتها وتذوق عسيلته |
● سنن النسائى الصغرى | 3441 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول |
● سنن النسائى الصغرى | 3440 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● سنن النسائى الصغرى | 3438 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● سنن النسائى الصغرى | 3437 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● سنن النسائى الصغرى | 3285 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته |
● سنن ابن ماجه | 1932 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
● بلوغ المرام | 854 | عائشة بنت عبد الله | لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول |
● مسندالحميدي | 228 | عائشة بنت عبد الله | أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2639
´جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔“ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2639]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2639 کا باب: «بَابُ شَهَادَةِ الْمُخْتَبِي:» � باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اپنے تئیں چھپ کر گواہ بنانے کو جائز قرار دیا ہے اور حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں ترجمۃ الباب سے موافقت موجود ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والغرض منه إنكار خالد بن سعيد على أمرأة رفاعة ما كانت تكلم به عند النبى صلى الله عليه وسلم مع كونه محجوبًا عنها خارج الباب، ولم ينكر النبى صلى الله عليه وسلم عليه ذالك» [فتح الباري، ج 6، ص: 212]
”یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے باہر تھے، عورت کے سامنے نہ تھے باوجود اس کے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے اپنے تئیں چھپ کر گواہی دینے پر) کوئی اعتراض نہیں کیا۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے قول میں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی گفتگو کے بارے میں انکار فرمایا کہ وہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر رہی ہے، اور اس شہادت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں روکا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا انکار ان کی آواز کی وجہ سے تھا جو انہیں سنائی دے رہی تھی۔ لہٰذا سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے تئیں گواہی چھپا کر دی اس عورت کی۔“ [عمدة القاري، ج 13، ص: 693]
علامہ عبدالحق الہاشمی الہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے مناسبت کی غرض یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے انکار فرمایا تھا اس خاتون کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کر رہی تھیں اور اس وقت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے تھے (ان کی اس گواہی پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا، پس سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی آواز پر اعتماد کیا یہاں تک کہ اس کے (اس فعل سے) انکار کیا۔“ [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 3، ص: 344]
بعض حضرات نے «شهادة المختبئ» کا انکار کیا ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فاختلف العلماء فى شهادة المختبئ، فروي عن شريح والشعبي [عبدالرزاق: 355/8، و ابن أبى شيبة: 432/4]
والنخعي أنهم كانوا لا يجيزونها وقالوا انه ليس بعدل حين اختبأ ممن يشهد عليه وهو قول أبى حنيفة والشافعي.» [معرفة السنن والاثار: 345/14]
یعنی علماء نے «مختبئ» کی شہادت پر اختلاف کیا ہے، پس شریح، الشعبی اور نخعی سے «مختبئ» کی شہادت کا انکار موجود ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ [مختصر الطحاوي، ص: 336]
امام مالک رحمہ اللہ «شهادة المختبئ» کے بارے میں فرماتے ہیں:
”جب آدمی عورت پر گواہی دے پردے کے پیچھے اور وہ اس عورت کو جانتا بھی ہو اور اس کی آواز پہچانتا بھی ہو تو (اس صورت میں) اس کی گواہی جائز ہو گی۔“
اور مزید آپ فرماتے ہیں:
”یقینا لوگ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے پاس جایا کرتے تھے (دینی مسائل کے دریافت کے لیے) اور ان حضرات اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے درمیان پردہ حائل ہوا کرتا تھا۔ پس وہ حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے سنا کرتے اور ان سے احادیث بیان کیا کرتے تھے۔“ [النادر والذيادات، ج 8، ص: 258]
لہذا اس دلیل سے «مختبئ» کی شہادت کی قبولیت کی واضح دلیل فراہم ہوتی ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب:
کتب احادیث میں تین قسم کے واقعات اسی نوعیت کے ملتے ہیں جن کی وجہ سے کئی حضرات نے ان واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے، جو کہ غلط ہے۔
ایک واقعہ جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے، دوسرا واقعہ بعین اسی نوعیت کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: « ﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ » [البقرة: 230] کے نزول میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیت عائشہ بنت عبد الرحمن بن عتیک کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ اپنے چچا زاد رفاعہ بن وہب کے نکاح میں تھیں، رفاعہ بن وہب نے انہیں تین طلاقیں دیں تو انہوں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کی، عبدالرحمن نے انہیں طلاق دی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں کہ عبدالرحمن نے مجھے جماع کے بغیر ہی طلاق دے دی۔ اب کیا میں پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہوں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ [الدر المنثور: 1283/1 - فتح الباري، ج 9، ص: 581]
بعض حضرات نے ان دو واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فالواضح من سياقه انها قصة أخرى وان كلا من رفاعة القرظي ورفاعة النضري وقع له من زوجة له طلاق فتزوج كلا منهما عبدالرحمن بن الزبير فطلقها قبل ان يمسها فالحكم فى قصتهما متحد مع تغاير الأشخاص.» [فتح الباري، ج 9، ص: 581]
”سیاق سے واضح یہ ہے کہ مذکورہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ کیونکہ پہلا واقعہ رفاعہ بن سموال کی بیوی کا ہے، اور دوسرا واقعہ رفاعہ بن وہب کا ہے، اور دونوں عورتوں نے دوسری شادی عبدالرحمن بن زبیر سے کی۔“
حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ مذکورہ دونوں واقعات مختلف ہیں مگر ان میں اشتراک اس بات کا ہے کہ دونوں خاتوں نے نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے کیا تھا۔
تیسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے جسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ:
”ایک عورت جس کا نام ”غمیصاء“ یا ”رمیصاء“ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اپنے شوہر کی شکایت کرنے کہ وہ جماع پر قادر نہیں ہے، تو اس کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ دراصل یہ اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ليس ذالك لها حتى تذوق عسيلته» “ [الدر المنثور: 284/1]
گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں واقعات الگ الگ ہیں جن کا ذکر مختلف کتب احادیث و تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ «والله اعلم»
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 378
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3285
´وہ نکاح جس سے تین طلاق دی ہوئی عورت طلاق دینے والے کے لیے حلال ہوتی ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے طلاق بتہ (یعنی بالکل قطع تعلق کر دینے والی آخری طلاق) دے دی ہے، اور میں نے ان کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی جن کے پاس بس کپڑے کی جھالر جیسا ہے، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ واپس جانا چاہتی ہو (تو سن لو) یہ اس وقت تک نہیں [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3285]
اردو حاشہ:
(1) ”رفاعہ کی بیوی“ یعنی جو پہلے رفاعہ کی بیوی تھی، ورنہ اس وقت تو وہ عبدالرحمن بن زبیر کے نکاح میں تھی۔
(2) ”تیسری طلاق“ عربی مںی لفظ بتہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں: قطعی طلاق، یعنی جس کے بعد رجوع کا امکان نہ ہو۔ اور وہ عام حالات میں تیسری طلاق ہوسکتی ہے۔
(3) ”پلو“ یہ ان کی مرادنہ قوت کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔ کنایات میں عموماً مبالغہ آرائی ہوتی ہے ورنہ وہ کنایا نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتا، لہٰذا ظاہر الفاظ مراد نہیں ہوتے۔ صرف اشارہ کنایہ ہے۔ اس کی یہ شکایت درست نہ تھی کیونکہ نبی اکرمﷺ نے اسے رد کردیا تھا۔ صحیح بخاری میں یہ صراحت موجود ہے کہ خاوند کو بھی پتہ چل گیا کہ اس کی بیوی نے نبیﷺ کے پاس شکایت لے کر گئی ہے تو وہ بھی پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ (دوسری بیوی سے) ان کے دو بیٹے تھے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! واللہ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ میں تو اسے چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں (یعنی پوری قوت سے بھر پور جماع کرتا ہوں) لیکن یہ مجھے ناپسند کرتی ہے اور رفاعہ کی طرف واپس جانا چاہتی ہے… پھر نبی اکرمﷺ نے اس سے پوچھا کہ ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپﷺ نے اس عورت سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”تو اس پر یہ الزام لگا رہی ہے؟ حالانکہ اللہ کی قسم! اس کے بیٹے اپنے باپ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ مشابہت رکھتے ہیں جتنی ایک کوا دوسرے کوے سے رکھتا ہے۔“ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5825) وہ عورت اپنے بیان کے مطابق پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی تھی کیونکہ اس کے لیے دوسرے خاوند کا اس کے ساتھ جماع اور اس کے بعد طلاق دینا ضروری تھا۔
(4) ”لطف اندوز ہونا“ تیسری طلاق کے بعد خاوند بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوجاتے ہیں، الا یہ کہ وہ عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، پھر ان میں بھی ناچاقی ہوجائے تو وہ عورت عدت کے بعد خاوند سے نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ دوسرا خاوند اس سے جماع کرچکا ہو۔ اگر جماع نہ ہوا ہو تو طلاق کے باوجود پہلے خاوند کے لیے نکاح نہ ہو گی۔ ”لطف اندوز ہو“ میں اس طرف اشارہ ہے۔
(5) آج کل ”حلالہ“ کے نام پر جو بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور عورتوں کو بھینسوں کی طرح کرائے کے ”سانڈ“ کے پاس لے جایا جاتا ہے، یہ امر سراسر شریعت کے خلاف ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس میں ملوث تمام اشخاص پر لعنت فرمائی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3285
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3436
´دوسری شادی کرنے والی عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دی۔ اس عورت نے دوسری شادی کر لی، وہ دوسرا شخص (تنہائی میں) اس کے پاس گیا اور اسے جماع کیے بغیر طلاق دے دی۔ تو کیا اب یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، وہ اس وقت تک پہلے کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک کہ اس کا دوسرا شوہر اس کے [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3436]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ حدیث کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ بخاری ومسلم کی روایت اس سے کفایت کرتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محقق کتاب کے نزدیک بھی یہ حدیث قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قراردیا ہے۔
(2) جس عورت کو تین طلاقیں ہوجائیں‘ وہ اس خاوند پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے الا یہ کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور وہ دونوں آپس میں خاوند بیوی کی طرح رہیں‘ جماع وغیرہ کریں‘ پھر ان دونوں میں نباہ نہ ہوسکے اور دوسرا شخص اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے تو وہ عورت عدت گزارنے کے بعد اپنے پہلے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے‘ لیکن اگر دوسرے خاوند نے جماع کے بغیر طلاق دے دی تو وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ اس سارے عمل میں کوئی ”سازش“ نہیں ہونی چاہیے‘ یعنی دوسرا نکاح پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی نیت سے نہ ہو‘ ورنہ نکاح نہیں ”زنا“ ہوگا۔ اور وہ پہلے خاوند کے لیے بھی حلال نہ ہوگی۔ صحیح حدیث میں اس ”سازش“ کے کرداروں (حلالہ کرنے اور کروانے والے) پر لعنت کی گئی ہے۔ (مزید دیکھیے‘ حدیث:3238)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3436
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3437
´دوسری شادی کرنے والی عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کی اور ان کے پاس تو اس کپڑے کی جھالر جیسے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے تم دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو، اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ وہ (دوسرا شوہر) تمہارا اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو۔“ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3437]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھیے ح نمبر 3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3437
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3438
´قطعی طلاق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں رفاعہ قرظی کی بیوی تھی اس نے مجھے طلاق بتہ دے دی ہے تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور اللہ کے رسول! قسم اللہ کی ان کے پاس تو اس جھالر جیسی چیز کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎ انہوں نے اپنی چادر کا پلو پکڑ کر یہ بات کہی۔ اس وقت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے تھے، آپ صلی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3438]
اردو حاشہ:
بتہ طلاق کی تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث:3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3438
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3441
´تین طلاق والی عورت کا حلالہ اور اس کے لیے حلال و جائز کر دینے والے نکاح کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو اس عورت نے دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ اس (دوسرے شخص) نے اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا (ایسی صورت میں) وہ عورت پہلے والے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جب تک کہ وہ (دوسرا) اس کے شہد کا مزہ نہ لے لو جس طرح اس کے پہلے شوہ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3441]
اردو حاشہ:
ا س مسئلے کی تفصیل کے لیے دیکھے‘ حدیث: 3285۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3441
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2309
´تین طلاق کے بعد عورت دوسرے شخص سے نکاح کئے بغیر پہلے شوہر کے پاس نہیں آ سکتی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور وہ شخص اس کے پاس گیا لیکن جماع سے پہلے ہی اس نے اسے طلاق دے دی تو کیا وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی؟۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عورت دوسرے شوہر کی مٹھاس نہ چکھ لے اور وہ شوہر اس عورت کی مٹھاس نہ چکھ لے ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2309]
فوائد ومسائل:
1: سورۃ البقرہ میں آیت 224 اور مابعد میں طلاق کے احکام بیان ہوئے ہیں۔
آیت 230 میں ہے کہ پھراگر(تیسری بار) طلاق دی تو اب وہ اس کے لئے حلال نہیں ہے جب تک کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرلے پھراگر وہ طلاق دے دے توان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ پھر باہم مل جائیں بشرطیکہ انہیں یقین ہو وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھیں گے۔
2: یہ روایت بعض محقیقن کے نزدیک صحیح ہے، اس لئے اس میں بیان کردہ بات صحیح روایات میں بھی بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہواکہ دوسری جگہ محض نکاح کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے خاوند سے اس کا زن وشوہر والا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔
اگر اس تعلق زوجیت کے بغیر ہی دوسراخاوند طلاق دے دے تو یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی اسی طرح جو لوگ چند روز اس کے لئے نیت سے نکاح کرتے ہیں تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے تو یہ مشروط نکاح، نکاح نہیں بلکہ بدکاری ہے۔
بنا بریں حلالہ کے نام سے محض رسمی عقد کر لینا اور اسی عارضی طور پر عورت کو کسی مرد کےحوالے کر دینا تا کہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے، حرام ہے، ایسا نکاح صحیح ہے نہ رجوع۔
اس غرض سے نکاح کرنے والے کے لئے ایک بہت بڑی مثال دی گئی ہے کہ ایسا تو گویا مانگے کا سانڈ ہے۔
(سنن ابن ماجة‘ النکاح، حدیث:1936)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2309
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1932
´ایک آدمی نے اپنی عورت کو تین طلاق دی، اس نے دوسرے سے شادی کر لی پھر دوسرے شوہر نے جماع سے پہلے اسے طلاق دیدی تو کیا اب وہ پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی (رضی اللہ عنہا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں رفاعہ کے پاس تھی، انہوں نے مجھے تین طلاق دے دی، تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، اور ان کے پاس جو ہے وہ ایسا ہے جیسے کپڑے کا جھالر ۱؎ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، اور فرمایا: ”کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم عبدالرحمٰن کا مزہ نہ چکھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1932]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد کو حق حاصل ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے لیکن یہ حق طلاق محدود ہے، یعنی پوری زندگی میں اسے صرف تین مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے۔
پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اسے رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں رہتا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ (البقرة: 229)
”(رجعی)
طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو اچھائی سے روک لینا ہے یا عمدگی سے چھوڑ دینا ہے۔“
(2)
تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا بلکہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے۔
(3)
اگر کسی وجہ سے دوسرے مرد سے نباہ نہ ہو سکے اور طلاق ہو جائے یا وہ فوت ہو جائے تو پھر عورت اگر چاہے تو پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پہلے خاوند سےنکاح کیا جائے بلکہ کسی تیسرے آدمی سے بھی نکاح کیا جا سکتا ہے۔
(4)
پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے خاوند نے مقاربت کے بعد طلاق دی ہو۔
اگر دوسرے نے مقاربت سے پہلے طلاق دی ہو تو پہلے خاوند سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا۔
کسی تیسرے آدمی سے جائز ہو گا۔
(5)
طلاق بتہ اس طلاق کو کہتے ہیں جس کے بعد رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔
اگر عورت سےنکاح کر کے خلوت سے پہلے طلاق دے دی جائے تو یہ پہلی ہی بتہ، یعنی آخری طلاق ہے۔
اگر آزاد عورت کے بجائے لونڈی سے نکاح کیا گیا ہو تو دوسری طلاق آخری ہے۔
باقی حالات میں تیسری طلاق آخری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1932
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1118
´آدمی بیوی کو تین طلاق دیدے پھر اس سے کوئی اور شادی کر کے دخول سے پہلے اسے طلاق دیدے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔ انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سوا کچھ نہیں ہے ۱؎، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں“ ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1118]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ یعنی انہیں جماع کی قدرت نہیں ہے۔
2؎ ”حتی تذوقی عُسیلته ویذوق عُسیلتك“ سے کنایہ جماع کی طرف ہے اورجماع کوشہد سے تشبیہ دینے سے مقصودیہ ہے کہ جس طرح شہد کے استعمال سے لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے اسی طرح جماع سے بھی لذت وحلاوت حاصل ہوتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1118
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:228
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طلاق بتہ آخری طلاق کو کہتے ہیں۔ اگر بیوی کو اس کے خاوند نے شریعت کے مطابق الگ الگ تین طلاقیں دیں ہیں، تو وہ عورت آگے شادی کر سکتی ہے۔ دوسرے خاوند سے زندگی گزارنے کی نیت سے شادی ہونی چاہیے، ایک رات یا تھوڑی مدت کے لیے نہیں۔ مروجہ حلالہ بدکاری اور کبیرہ گناہ ہے، جس میں عورت کا نکاح کچھ وقت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عورت دوسرے خاوند سے اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر طلاق لینا چاہے اور دوبارہ پہلے خاوند سے شادی کرنا چاہے تو ان کا آپس میں ایک دوسرے سے لذت حاصل کرنا شرط ہے، یعنی دوسرا خاوند اپنی بیوی سے مجامعت کرے گا، پھر قرآن وحدیث کے اصولوں کے مطابق خلع یا طلاق ہو گی، ورنہ عورت پہلے خاوند سے دوبارہ شادی نہیں کر سکتی۔ عورت اپنے خاوند کی مردانہ کمزوری کو حکمران کے سامنے بیان کر سکتی ہے، لیکن یہ غیبت نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 228
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3527
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو فیصلہ کن تیسری طلاق دے دی، تو اس نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں رفاعہ کی بیوی تھی، تو اس نے مجھے آخری تیسری طلاق دے دی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی اور وہ اللہ کی قسم! اس کے پاس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3527]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بَتَّ طَلاَقِی:
اس نے آخری فیصلہ کن طلاق دے دی،
کوئی طلاق باقی نہیں چھوڑی یعنی آخری تیسری طلاق دے دی جس کے بعد کوئی طلاق نہیں ہے۔
فوائد ومسائل:
حضرت رفاعہ قرظی کی بیوی تمیمہ بنت وہب کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب عورت کو الگ الگ تین طلاقیں مل جائیں تو وہ تیسری طلاق کے بعد پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ کسی اور خاوند سے نکاح کر کے اس سے خوش دلی کے ساتھ آباد رہنے کے لیے تعلقات زن و شوہر قائم نہ کر لے کیونکہ حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب اولاد تھے،
لیکن یہ دوسری بیوی ان سے خوش دلی کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرتی تھی،
اس لیے انہیں انتشار نہیں ہوتا تھا یا اس کی تسلی نہیں ہوتی تھی،
جب کہ یہ اصل میں پہلے خاوند کو دل دے چکی تھی،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنے خاوند سے خود بھی لذت اندوز ہو اور اس کو بھی لطف اندوز ہونے کا موقع دے۔
حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ و تابعین کا اس پر اتفاق ہے اور یہی درست ہے کہ اگر دوسرا خاوند تعلقات قائم کرنے کے بعد اگرچہ انزال نہ بھی ہو،
اپنی مرضی اور ارادے سے بلا کسی شرط و جبر یا حیلہ کے طلاق دے،
تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے شادی کر سکتی ہے،
اور حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک محض نکاح کرنا کافی ہے،
جبکہ حسن بصری کے نزدیک انزال شرط ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3527
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5825
5825. حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔۔۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5825]
حدیث حاشیہ:
وہ خاتون ہرے رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی یہی باب سے مطابقت ہے۔
اس عورت نے اپنے خاوند کے نامرد ہونے کی شکایت کی تھی جس کے جواب کے لیے خاوند عبد الرحمن بن زبیر اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لائے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے بارے میں حضرت عبدالرحمن کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ فرمایا جو یہاں مذکور ہے۔
مسئلہ یہی ہے کہ مطلقہ بائنہ عورت پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک وہ دوسرا خاوند اس سے خوب جماع نہ کر لے اورپھر اپنی مرضی سے اسے طلاق دے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2639
2639. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔“ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2639]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے یہیں سے یہ نکالا کہ چھپ کر گواہ بننا درست ہے۔
کیوں کہ خالد دروازے کے باہر تھے۔
عورت کے سامنے نہ تھے۔
باوجود اس کے خالد نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور آنحضرت ﷺ نے خالد پر اعتراض نہیں کیا۔
عبدالرحمن بن زبیر ؓصاحب اولاد تھے مگر اس وقت شاید وہ مریض ہوں.... اسی وجہ سے اس عورت نے اس کو کپڑے کی گانٹھ سے تعبیر کیا جس میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوتی، یعنی وہ جماع نہیں کرسکتے۔
مگر حضرت ابن زبیر ؓنے عورت کے اس بیان کی تردید کی تھی۔
اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تک مطلقہ عورت از خود کسی دوسرے مرد کے نکاح میں جاکر اس سے جماع نہ کرائے اور وہ خود اس کو طلاق نہ دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ نہیں جاسکتی۔
فرضی حلالہ کرانے والوں پر لعنت آئی ہے۔
جیسا کہ فقہائے حنفیہ کے ہاں رواج ہے کہ وہ تین طلاق والی عورت کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیا کرتے ہیں، جو باعث لعنت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2639
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5261
5261. سیدہ عاشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا: کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5261]
حدیث حاشیہ:
موجودہ مروجہ حلالہ کی صورت قطعاً حرام ہے جس کے کرنے اور کرانے والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5261
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5265
5265. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی پھر اس نے بھی اسے طلاق دے دی۔ اس دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزا نہ ملا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ آخر اس نے تھوڑے ہی دن رک کر اسے طلاق دے دی۔ وہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ پھر میں نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس کے پاس کپڑے کے پلو کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک ہی مرتبہ میرے پاس آیا اوروہ بھی بے کار۔ کیا اب میں پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگئی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ دوسرا تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5265]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
یعنی جب تک اچھی طرح دخول نہ ہو۔
اس سے ثابت ہوا کہ صرف حشفہ کا فرج میں داخل ہو جانا تحلیل کے لیے کافی ہے۔
امام حسن بصری نے انزال کی بھی شرط رکھی ہے۔
یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ عورت کا حکم کھانے پینے کی طرح نہیں ہے۔
بلکہ وہ حقیقتاً حلال یا حرام ہوتی ہے جیسے اس حدیث میں ہے کہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5265
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5792
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
عورت نے اپنی جھالر دار چادر کی طرف اشارہ کیا۔
باب سے یہی جملہ مطابقت رکھتا ہے باقی دیگر مسائل جو اس حدیث سے نکلتے ہیں وہ بھی واضح ہیں۔
قانون یہ بنا کہ جس عورت کو تین طلاق دے دی جائیں اس کا پہلے خاوند سے پھر نکاح نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے خاوند سے صحبت نہ کرائے پھر وہ خاوند خود اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، یہ شرعی حلالہ ہے۔
پھر خود اس مقصد کے تحت فرضی حلالہ کرانا موجب لعنت ہے اللہ ان علماء پر رحم کرے جو عورتوں کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
تین طلاق سے تین طہر کی طلاقیں مراد ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5792
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2639
2639. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔“ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2639]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس خاتون کا نام تمیمہ بنت وہب تھا جو پہلے حضرت رفاعہ بن سموال ؓ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے قطعی طلاق دے کر اسے اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا۔
اس نے دوسرا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر ؓ سے کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کے نامرد ہونے کی شکایت بڑے واشگاف اور صاف الفاظ میں کی۔
حضرت عبدالرحمٰن ؓ کو قرائن سے پتہ چلا کہ یہ میری شکایت کرے گی تو وہ اپنے دو صاجزادوں کو ساتھ لائے جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے اور کھلے الفاظ میں اس کے موقف کی تردید کی۔
(2)
حضرت خالد بن سعید ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے عورت کی ناشائستہ گفتگو سن رہے تھے۔
انہوں نے عورت کی محض آواز سن کر اس کا نوٹس لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں کیا، لہذا حضرت خالد ؓ چھپنے والے کی طرح ہوئے جنہوں نے محض آواز سن کو گواہی دی۔
(3)
دراصل وہ عورت اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگا کر اس سے چھٹکارا پا کر پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور فرمایا:
”ایسا نہیں ہو سکتا، تجھے اسی خاوند کے پاس رہنا ہو گا۔
“ اس نے بھی عورت کی شکایت کا دو ٹوک الفاظ میں دندان شکن جواب دیا، کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں عورت کے دعوے کی تردید کی۔
اس کی تفصیل ہم کتاب اللباس، حدیث: 5825 کے تحت بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2639
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5260
5260. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی ؓ کی بیوی، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! رفاعہ ؓ نے مجھے طلاق دی ہے وہ بھی ایسی جس سے ہمارے تعلقات ختم ہو گئے ہیں میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ اس کے پاس کپڑے کے پھندے کی طرح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شاید تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو؟ لیکن اب تو اس کے پاس نہیں جاسکتی تا آنکہ وہ تیرا مزا نہ چکھ لے اور تو اس سے لطف اندوز نہ ہو جائے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5260]
حدیث حاشیہ:
(1)
فبت طلاقي کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے طلاق کے ذریعے سے میرے ساتھ مکمل طور پر تعلق قطع کر دیا ہے۔
اس سے بعض حضرات نے اخذ کیا ہے کہ اس نے مجھے یکبار تین طلاقیں اکٹھی دے دی ہیں لیکن یہ مفہوم امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کے خلاف ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ تینوں طلاقیں دینا جائز ہیں اور بينونت كبري میں کوئی قباحت نہیں جیسا کہ تیسری طلاق کے بعد ہوتا ہے۔
حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسے وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں اور یہ آخری طلاق تھی جس کے ذریعے سے ان کے تعلقات ختم ہو چکے تھے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
اس عورت نے کہا:
اس نے مجھے تینوں طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے ڈالی ہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6084)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مذکورہ آیت سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کے اپنی بیوی کو وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں۔
(فتح الباري: 455/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5260
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5261
5261. سیدہ عاشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کی بیوی نے کسی اور شخص سے نکاح کر لیا۔ دوسرے خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا: کیا پہلے شوہر کے لیے اب یہ عورت حلال ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، یہاں تک کہ دوسرا شوہر اس سے لطف اندوز ہو جیسا کہ پہلا شوہر ہوا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5261]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دی تھیں، بلکہ متبادر یہی ہے کہ اس نے وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ یکبارگی تین طلاقیں دینے سے تو صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے جیسا کہ آئندہ ثابت ہوگا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین طلاقیں جن سے بینونت کبریٰ عمل میں آتی ہے،ان میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ ایک طلاق دے کر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ وہ اپنی عدت پوری کرےتاہم وقفے وقفے سے طلاق کا نصاب پورا کیا جاسکتا ہے۔
تین طلاقوں کا مسئلہ"مسئلہ طلاق انتہائی نزاکت کا حامل ہے لیکن ہم اس سلسلے میں بہت غفلت کا شکار ہیں۔
جب بھی گھر میں کوئی ناچاقی سنگین صورت حال اختیار کرتی ہے تو ہم غصے میں آکر فوراً طلاق،طلاق، طلاق، کہہ دیتے ہیں یا طلاق ثلاثہ ایک ہی کاغذ پر لکھ کر اسے اپنے آپ پر حرام کرلیتے ہیں،پھر جب ہوش آتا ہے تو در،درکی خاک چھاننا شروع کردیتے ہیں۔
کچھ اہل علم کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بیک وقت دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ کے لیے طلاق دینے والے کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے،پھر اس بیوی کو اس کے لیے حلال کرنے کی خاطر ننگ اخلاق،حیاسوز، بدنام زمانہ حلالہ کا مشورہ دیا جاتا ہے،جو نہ صرف بے شرمی اور بےحیائی ہے بلکہ مخالفین اسلام کو اس قسم کی ایمان شکن حرکات کی آڑ میں اسلام پر حملہ آور ہونے کا موقع ملتا ہے۔
اگر سوچہ جائے تو حلالہ تو طلاق دینے والے کا ہونا چاہیے تھا جس نے یہ حرکت کی ہے لیکن ہمارے ہاں عورت کو تختۂ مشق بنایا جاتا ہے اور اس کی عصمت وعزت کو داغدار کیا جاتا ہے،جبکہ حدیث میں حلالہ کرنے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں کو ملعون کہا گیا ہے۔
(سنن ابی داود، النکاح، حدیث: 2076)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ نکالنے والے کو کرائے کا سانڈ کہا ہے۔
(سنن ابن ماجہ، النکاح، حدیث: 1936)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ ایسے حلالہ کرنے والے اور نکلوانے والے دونوں کو زنا کی سزا دی جائے گی۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/337)
بعض اوقات یہ بے بس لیکن غیرت مند عورت اس ظلم وزیادتی کا طلاق دینے والے اور اپنے رشتے داروں سے یوں انتقام لیتی ہے کہ رات ہی رات وہ حلالہ کرنے والے سے سیٹ ہوگئی اور اس نئے جوڑے نے عہدوپیمان کرلیا اور اپنے نکاح کو پائیدار کرلیا۔
اس طرح حلالہ نکلوانے والے کی سب امیدیں خاک میں ملادیں۔
ایسے واقعات آئے دن اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
بہرحال بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور ٹھکانے پر بیٹھ جاتا ہے۔
کتاب وسنت کے مطابق ایک مجلس کی دی ہوئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو،اب دوران عدت میں خاوند کو بلا تجدید نکاح رجوع کا حق ہے اور عدت گزارنے کے بعد بھی نئے نکاح سے رجوع ہوسکتا ہے۔
اس نئے نکاح کی چار شرائط حسب ذیل ہیں:
٭عورت کے سرپرست اس کی اجازت دیں۔
٭عورت بھی طلاق دینے والے کے ہاں رہنے پر آمادہ ہو۔
٭حق مہر بھی نئے سرے سے مقرر کیا جائے۔
٭گواہ بھی موجود ہوں۔
اگرچہ اس انداز سے طلاق دینا اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دےدیں،آپ کو جب اس بات کا علم ہوا تو غصے کی وجہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
"تم نے میری زندگی میں اللہ کے احکام سے کھیلنا شروع کردیا ہے۔
"آپ کی ناراضی کو دیکھ کر ایک شخص نے کہا:
اللہ کے رسول!آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اسےقتل کردوں۔
(سنن النسائی، الطلاق، حدیث: 3430)
اس انداز سے دی ہوئی طلاق کے رجعی ہونے کے دلائل حسب ذیل ہیں:
٭حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک،حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانۂخلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دوسالہ دور حکومت میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد لوگوں نے اس گنجائش سے غلط فائدہ اٹھانا شروع کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تأدیبی طور پر تین طلاقیں نافذ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3673 (1472)
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام تعزیری تھا کیونکہ آپ عمر کے آخری حصے میں اپنے اس فیصلے پر اظہار افسوس فرمایا کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن قیم نے محدث ابوبکر اسماعیلی کی تصنیف، مسندعمر،کے حوالے سے لکھا ہے۔
(إغاثۃ اللھفان: 1/336)
٭حضرت رکانہ بن عبدیزید رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی۔
اس کے بعد انھیں اپنی بیوی کے فراق میں انتہائی افسوس ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب معاملہ پہنچا تو آپ نے انھیں بلایا اور دریافت فرمایا:
"طلاق کیسے دی تھی؟" انھوں نے کہا:
ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یہ تو ایک رجعی طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کرلو۔
"چنانچہ انھوں نے رجوع کرکے دوبارہ اپنا گھر آباد کرلیا۔
(مسند احمد: 1/265)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسئلۂ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تأویل نہیں ہوسکتی۔
(فتح الباری: 9/450)
قرآن وحدیث کا یہی فیصلہ ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہے،اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہ فتوی دیا جاتا ہے۔
والله المستعان.واضح رہے کہ ہمارے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے پر اجماع کا دعوی کیا جاتا ہے،حالانکہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔
علمی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ تطلیق ثلاثہ کے متعلق مندرجہ ذیل چارقسم کے گروہ پائے جاتے ہیں:
٭ پہلا گروہ سنت نبوی کو ہر زمانے میں معمول بہ جانتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ہنگامی اور تعزیزی خیال کرتا ہے۔
ان کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی شمار ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کتاب وسنت سے ثابت کیا ہے۔
٭دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ واقعی دائمی ہے۔
ان کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں تینوں ہی نافذ العمل ہیں۔
پھر ان کی طرف سے بدنام زمانہ حلالہ کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
٭تیسرے گروہ کے نزدیک اس انداز سے دی ہوئی تین طلاقیں فضول اور خلاف سنت ہیں،لہٰذا ایک واقع نہیں ہوگی۔
ان کے ہاں ایسا کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت رد کے قابل ہوتی ہے۔
٭کچھ قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے نزدیک ایک غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوگی اور اگر مدخولہ کو دی جائیں تو تینوں نافذ ہوں گی۔
غور فرمائیں کہ جسے مسئلے میں اتنا اختلاف ہو کہ اس میں چار گروہ پائے جائیں اسے کس طرح اجماعی قرار دیا جاسکتا ہے!ہمارے رجحان کے مطابق ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا دور جاہلیت کی یادگار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر لوٹ آئی ہے۔
اس کا دروازہ سختی سے بند کرنا چاہیے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بدنی سزا ہونی چاہیے تاکہ حلالے جیسے گندے اور بدترین اقدام کی حوصلہ شکنی ہو۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5261
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5265
5265. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی پھر اس نے بھی اسے طلاق دے دی۔ اس دوسرے شوہر کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح تھا۔ عورت کو اس سے پورا مزا نہ ملا جیسا کہ وہ چاہتی تھی۔ آخر اس نے تھوڑے ہی دن رک کر اسے طلاق دے دی۔ وہ عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ پھر میں نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کیا۔ جب وہ میرے پاس آیا تو اس کے پاس کپڑے کے پلو کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک ہی مرتبہ میرے پاس آیا اوروہ بھی بے کار۔ کیا اب میں پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگئی ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ دوسرا تجھ سے لطف اندوز ہو اور تو اس سے لطف اندوز ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5265]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا:
”تیرے خاوند نے تجھے تین طلاقیں دی ہیں، اس لیے تو اس کے لیے حلال نہیں۔
“ آپ نے تین طلاقوں کے بعد عورت کے لیے حرام کا اطلاق کیا، لیکن یہ حرمت کھانے کے حرام کرنے کی طرح نہیں ہے کیونکہ کھانے کو حرام قرار دینا یہ بندے کے اختیار میں نہیں۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
لیکن عورت کو حرام قرار دینا یہ بندے کے اختیار میں ہے کیونکہ وہ اس کی طلاق کا مالک ہے۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان حسن بصری کے قول کی طرف معلوم ہوتا ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5265
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5792
5792. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں آپ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی وہاں موجود تھے اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں رفاعہ کی بیوی تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا ہے۔ میں نے اس کے بعد عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے نکاح کیا۔ اللہ کے رسول! میں قسم اٹھاتی ہوں کہ اس کے پاس اس پھندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور اس نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا۔ حضرت خالد بن سعید ؓ دروازے کے پاس کھڑے اس کی باتیں سن رہے تھے اور انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں کھڑے کھڑے کہا: اے ابو بکر! کیا آپ اس عورت کو منع نہیں کرتے، یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بلند آواز سے کیسی گفتگو کر رہی ہے اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ اس کی باتیں سن کر صرف تبسم فرماتے رہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5792]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے چادر کا وہ کنارا پکڑ کر اشارہ کیا جو صرف دھاگوں کی صورت میں تھا اور اسے بنا نہیں گیا تھا، جو چادر بنی ہوئی ہو اس میں کچھ تناؤ ہوتا ہے لیکن دھاگے تو ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عورت کے اس اشارے سے عنوان ثابت کیا کہ اس نے ڈورے دار چادر پہن رکھی تھی۔
اگر اس کا پہننا ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کرتے۔
ڈورے دار چادر پہننے کے متعلق ایک واضح حدیث ہے حضرت جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اپنے گھٹنوں کو اٹھائے ایک چادر پہنے بیٹھے تھے اور اس چادر کے ڈورے آپ کے قدموں پر پڑ رہے تھے۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4057)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم کپڑے کے اطراف میں اگر دھاگے بطور زینت چھوڑ دیے گئے ہوں اور انہیں بنا نہ گیا ہو بلکہ ایک خاص انداز سے ٹانکا گیا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5792
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5825
5825. حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔۔۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5825]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کپڑے کے پلو سے یہ تاثر دیا کہ اس کا آلۂ جماع کمزور ہے، میری شہوت پوری نہیں کر سکتا۔
اس کا خاوند اپنے دفاع کے لیے دو بچے ہمراہ لایا تاکہ اس کی کذب بیانی کو واضح کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی نافرمانی پر شوہر اسے پیٹ سکتا ہے۔
اگر ضرب شدید سے اس کا چمڑا متاثر ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔
چونکہ وہ خاتون سبز رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے سبز رنگ کا کپڑا استعمال کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے، حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو میں نے آپ پر سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں دیکھی تھیں۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4065) (3)
سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، اہل جنت کے لیے ریشم کے سبز لباس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ان کے اوپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہو گی۔
“ مگر سبز رنگ کو بطور شعار اختیار کرنا قطعاً پسندیدہ نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5825