(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن المبارك المخرمي، حدثنا قراد ابو نوح، حدثنا جرير بن حازم، عن ايوب، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" جاءت امراة ثابت بن قيس بن شماس إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، ما انقم على ثابت في دين ولا خلق إلا اني اخاف الكفر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فتردين عليه حديقته؟ فقالت: نعم، فردت عليه، وامره ففارقها".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَادٌ أَبُو نُوحٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" جَاءَتْ امْرَأَةُ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الْكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن مبارک مخری نے کہا، کہا ہم سے قراد ابونوح نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت رضی اللہ عنہ کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
Narrated Ibn `Abbas: The wife of Thabit bin Qais bin Shammas came to the Prophet and said, "O Allah's Apostle! I do not blame Thabit for any defects in his character or his religion, but I am afraid that I (being a Muslim) may become unthankful for Allah's Blessings." On that, Allah's Apostle said (to her), 'Will you return his garden to him?" She said, "Yes." So she returned his garden to him and the Prophet told him to divorce her.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 199
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5276
حدیث حاشیہ: ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ راویوں نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ ایوب پر ابن طہمان اور جریر نے اس کو موصولاً نقل کیا ہے اور حماد نے مرسلاً ایک روایت میں بیان کیا ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ کی اس عورت کا نام حبیبہ بنت سہل تھا۔ بزار نے روایت کیا کہ یہ پہلا خلع تھا اسلام میں۔ واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5276
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے ہیں کہ سابقہ احادیث میں جو اسے طلاق کا حکم دیا گیا تھا اس سے مراد لغوی طلاق ہے، یعنی اسے چھوڑ دے، اس سے اصطلاحی طلاق مراد نہیں ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ تو اسے جدا کر دے۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق خلع فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں کیونکہ: ٭ خلع کی عدت ایک حیض ہے جبکہ طلاق کی عدت تین حیض ہے۔ ٭خلع میں مرد کو رجوع کا حق نہیں جبکہ طلاق دینے کے بعد مرد کو رجوع کا حق ہوتا ہے۔ ٭خلع میں مرد اپنا دیا ہوا حق مہر واپس لے سکتا ہے جبکہ طلاق میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ٭ خلع حالت حیض میں بھی جائز ہے جبکہ طلاق حالت حیض میں منع ہے۔ ٭ خلع کے بعد میاں بیوی نئے سرے سے نکاح کر کے اکٹھے ہو سکتے ہیں جبکہ طلاق کا نصاب پورا ہونے کے بعد عام حالات میں میاں بیوی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ دوسری جگہ شادی کرنا پھر مکمل طور پر ہم بستر ہونے کے بعد اگر طلاق مل جائے تو پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5276
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 914
´خلع کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ٍ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے اخلاق اور دین میں کوئی عیب نہیں لگاتی۔ لیکن اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تو اس کا باغ واپس کر دے گی؟“ وہ بولی ہاں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اے ثابت)! اپنا باغ لے لو اور اسے طلاق دے دو۔“(بخاری) ابوداؤد اور ترمذی میں ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے خلع کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلئے عدت خلع ایک حیض مقرر فرمائی اور ابن ماجہ میں عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ بدصورت کالے رنگ کا آدمی تھا اور اس کی بیوی نے کہا اگر مجھے خدا کا خوف و ڈر نہ ہوتا تو جس وقت وہ میرے پاس آیا تھا میں اس کے منہ پر تھوک دیتی۔ اور مسند احمد میں سہل بن ابی حثمہ سے مروی ہے کہ اسلام میں یہ پہلا خلع تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 914»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب الخلع....، حديث:5273، وحديث امرأة ثابت بن قيس اختلعت منه: أخرجه أبوداود، الطلاق، حديث:2229، والترمذي، الطلاق واللعان، حديث:1185، وسنده حسن، وحديث عمرو بن شعيب: أخرجه ابن ماجه، الطلاق، حديث:2057 وسنده ضعيف، حجاج بن أرطاة ضعيف مدلس وعنعن، والحديث ضعفه البوصيري، وحديث سهل بن أبي حثمة: أخرجه أحمد:4 /3 وسنده ضعيف، فيه حجاج بن أرطاة عنعن.»
تشریح: 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر بیوی کا معقول عذر ہو تو وہ حق مہر خاوند کو واپس دے کر یا کوئی اور مال دے کر خلع کرا سکتی ہے۔ 2. ہمارے فاضل محقق نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ اور حضرت سہل بن ابی حثمہ سے مروی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ قرار دیا ہے جو کہ محدثین کے نزدیک قابل عمل اور قابل حجت ہوتی ہے‘ نیز ان کی بابت بحث و تمحیص سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۶ /۱۸‘ ۱۹) وضاحت: «حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ» انصار کے قبیلۂخزرج سے تعلق رکھتے تھے‘ اسی لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ اکابر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے تھے۔ انصار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے۔ اُحد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت کی بشارت دی۔ ۱۲ ہجری میں یمامہ کی معرکہ آرائی میں شہید ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 914
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3493
´خلع کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی و کوتاہی کا الزام نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر و ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟“(وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3493]
اردو حاشہ: ”کفر کے کام“ گھر میں خاوند سے نفرت کرنا‘ اس سے لڑتے رہنا اور اسے ناراض رکھنا ایسے کام ہیں۔ جو اسلام میں ممنوع ہیں۔ گویا یہ کفر کے کام ہیں۔ کفر سے مراد خاوند کی ناشکری بھی ہوسکتی ہے۔ عربی میں ناشکری کو بھی کفر کہتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3493
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2056
´شوہر نے عورت کو جو مال دیا ہے خلع کے بدلے وہ لے سکتا ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کی قسم میں (اپنے شوہر) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر (شوہر کی ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا ان کا دیا ہوا باغ واپس لوٹا دو گی“؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2056]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب عورت محسوس کرے کہ وہ خاوند کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور اس کےلیے اس کے حقوق کی ادائیگی مشکل ہے تو طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
(2) اس صورت میں اگر خاوند بغیر کچھ لیے طلاق دے دے تو وہ بھی صحیح ہے لیکن اسے طلاق کہا جائے گا خلع نہیں، (3) جب عورت پورا حق مہر یا حق مہر کا کچھ حصہ دے کر طلاق لیتی ہے تو اسے خلع کہتے ہیں۔ اور یہ جائز ہے۔
(4) خلع کی صورت میں خاوند کو صرف وہی کچھ لینا چاہیے جو اس نے دیا ہے، اس سے زیادہ نہیں لینا چاہیے۔
(5) خلع کا فیصلہ ہوجانے کی صورت میں عورت سے طے شدہ مال لے کر ایک طلاق دے دینا کافی ہے جس کے بعد عدت گزار کر عورت دوسرا نکاح کرلے گی۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نےفرمایا: ”باغ لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔“(صحیح البخاري، الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیه......، حدیث: 5273)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2056
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5275
5275. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ سیدنا ثابت بن قیس ؓ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے سیدنا ثابت ؓ کے دین اور ان کے اخلاق کے متعلق کوئی شکایت نہیں لیکن میں اس کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پھر کیا تم اس کا باغ واپس کرسکتی ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں [صحيح بخاري، حديث نمبر:5275]
حدیث حاشیہ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کے ساتھ کوئی بد خلقی نہیں کی تھی لیکن نسائی کی روایت میں ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ توڑ ڈالا تھا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ثابت رضی اللہ عنہ بد صورت آدمی تھے، اس وجہ سے جمیلہ کو ان سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5275
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5275
5275. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ سیدنا ثابت بن قیس ؓ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے سیدنا ثابت ؓ کے دین اور ان کے اخلاق کے متعلق کوئی شکایت نہیں لیکن میں اس کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”پھر کیا تم اس کا باغ واپس کرسکتی ہو؟“ اس نے کہا: جی ہاں [صحيح بخاري، حديث نمبر:5275]
حدیث حاشیہ: (1) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی قسم کی بداخلاقی کا مظاہرہ نہین کیا تھا، البتہ وہ شکل و صورت کے اعتبار سے اتنے خوبصورت نہ تھے جبکہ ان کی بیوی کو اللہ تعالیٰ نے بہت حسن و جمال دے رکھا تھا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن کسی جھگڑے کی وجہ سے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے مارا اور اس کا ہاتھ توڑ دیا، اسی وجہ سے ان کی بیوی میں نفرت کے جذبات پرورش پا چکے تھے۔ اس نے اپنی نفرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو جب یہ میرے پاس آئے تھے میں ان کے منہ پر تھوک دیتی۔ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2057، و فتح الباري: 495/9)(2) خلع کی صورت میں بیوی کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے اور خاوند بھی حق مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا: ”وہ اس سے اپنا باغ وصول کرے اور زیادہ کچھ نہ لے۔ “(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2056) لیکن بیوی اپنی مرضی سے اپنی جان چھڑانے کے لیے حق مہر سے کچھ زیادہ دینا چاہے تو جائز ہے کیونکہ شریعت میں اس کی ممانعت موجود نہیں اور جن روایات میں زیادہ دینے کی ممانعت ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5275