صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7563 کا باب: «سورة {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں سورۃ الناس کا ذکر فرمایا ہے، اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں سورۃ الناس کا بظاہر کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ:
«قوله: يقول كذا وكذا هكذا وقع هذا اللفظ مبهما .» [فتح الباري لابن حجر: 643/8] ”یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات
«كذا و كذا» یہ الفاظ ابہام کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں۔
“ یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق یہ الفاظ مبہم استعمال ہوئے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اسی مسئلے کی دوسری روایات کی طرف اشارہ فرما رہے جن روایات میں واضح طور پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا ذکر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«واخرج احمد عن ابي بكر بن عياش عن عاصم بلفظ ان عبد الله يقول فى معوذتين .» [فتح الباري لابن حجر: 643/8] ”یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کو نکالا بطریق
«ابوبكر بن عياش عن عاصم» سے ان الفاظ کے ساتھ یقیناً عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے بارے میں فرماتے تھے۔
“ امام احمد رحمہ اللہ کی اس پیش کردہ روایت سے صحیح بخاری کی روایت کی تشریح ہو جاتی ہے کہ صحیح بخاری کے الفاظ
«كذا و كذا» سے معوذتین کے بارے میں کچھ کہنا ہے، لہٰذا یہاں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو واضح ہوتا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب: مذکورہ روایت پر ایک بہت بڑا اشکال وارد ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ماننے سے کیوں انکار کرتے تھے؟ حالانکہ الفلق اور الناس کے قرآن ہونے میں امت اجماع ہے۔
اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے الحافظ ابی الفداءامام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا مشهور عند كثر من القراء و الفقهاء ان ابن مسعود كان لايكتب المعوذتين فى مصحفه فلعله لم سمعها من النبى صلى الله عليه وسلم ولم يتواتر عنده، ثم قد رجع عن قوله ذلك الي قول الجماعة، فان الصحابه رضى الله عنه اثبتوهما فى المصاحف و نفذوها الي سائر الافاق كذلك . . . . .» [تفسير ابن كثير: 515/8] ”یہ بات بہت سے قراء اور فقہاء کے مابین مشہور ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھتے تھے،
(لہٰذا اس کا جواب یہ ہے کہ) شاید انہوں نے اس کے قرآن ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ سنا ہو اور نہ یہ آپ کے نزدیک تواتر سے ثابت ہوں، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا
(اپنے موقف سے) صحابہ کی جماعت کے کہنے پر، یقیناً صحابہ معوذتین کو مصحف میں شامل کرتے تھے۔
“ محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«لم ينكر ابن مسعود رضى الله عنه كونهما من القرآن وانكر اثباتهما من المصحف، فانه كان يرى انه لا يكتب فى المصحف شيئا الا ان كان النبى صلى الله عليه وسلم اذن كتابه فيه، و كانه لم يبلغه الاذن فى ذلك» [الابواب و التراجم لصحیح البخاری: 423/5] ”سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن ہونے سے انکار نہیں کرتے تھے، بلکہ صرف مصحف میں اسے نہ لکھتے، کیوں کہ وہ مصحف میں اسی چیز کو لکھتے جس کے لکھنے کا انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیتے، لہٰذا معوذتین کو مصحف میں لکنے کی اجازت ان تک نہیں پہنچی
(لیکن دیگر صحابہ تک پہنچ گئی تھی)۔
“ ان گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ مطلق طور پر سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے انکاری نہ تھے بلکہ وہ اسے اپنے مصحف میں لکھنے سے انکار فرماتے تھے کیوں کہ ان تک سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو مصحف میں لکھنے کی کوئی دلیل نہیں پہنچی، اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جس روایت سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے قرآن نہ ہونے کی دلیل اخذ کی جاتی ہےوہ روایت شاذ ہونے کی بناء پر ضعیف ہو گی، کیوں کی متواترہ قرات جو کہ امام عاصمِ ابو عبدالرحمن السلمی، زر بن حبیش اور ابو عمرو الشیبانی سے منقول ہے اس میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس موجود ہیں، دیکھئے تفصیل کے لئے
(النشر فی القراٰت العشر لابن الجوزی: 1/156) اصول حدیث کے ایک قاعدہ کو اس موقع پر لازما یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک ثقہ راوی جب روایت بیان کرنے میں اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرے گا تو یہ روایت مخالفت ثقہ کی وجہ سے شاذ ہو گی، کیوں کہ اہل علم اس قاعدہ کو بخوبی جانتے ہیں کہ روایت حدیث میں کسی قسم کا شاذ ہونا اس کی خرابی اور ضعف کی علامت ہے، چنانچہ امام ابن الصلاح رحمہ اللہ اپنے مقدمہ میں رقم طراز ہیں کہ:
«فالحديث المعلل: هو الحديث الذى اطلع فيه على علة تقدح فى صحته مع ان ظاهره السلامة منها، و يتطرق ذلك الي الاسناد الذى رجاله ثقات، الجامع شروط الصحة من حيث الظاهر. و يستعان على ادراكها بتفرد الراوي وبمخالفة غيره له ......» [النكت على مقدمة ابن الصلاح للذركشي: ص 217] ”پس حدیث معلل وہ حدیث ہے، جس میں کوئی علت معلوم ہوتی ہو، جو اس حدیث کی صحت کو صحیح کرتی ہو، باوجود یہ کہ ظاہر نظر میں وہ صحیح سالم معلوم ہوتی ہے اور یہ
”علت
“ اس سند میں بھی واقع ہو جاتی ہے، جس کے راوی ثقہ ہوتے ہیں اور جس میں بظاہر صحت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اور اس علت کا ادراک علم حدیث میں بصیرت رکھنے والوں کو مختلف طریقوں سے ہوتا ہے، کبھی راوی کو منفرد دیکھ کر اور کبھی یہ دیکھ کر کہ وہ راوی کسی دوسرے راوی کی مخالفت کر رہا ہے اور اس کے ساتھ کبھی کبھار دوسرے قرائن بھی مل جاتے ہیں۔
“ امام ابن الصلاح رحمہ اللہ کی اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے بظاہر ایک حدیث صحیح ہو اور اگر اس میں ایسی کوئی علت پائی جائے جس کا ذکر ابن الصلاح نے فرمایا ہے تو اس قسم کی روایات قبول نہ کی جائیں گی، جیسے شاذ، معلل روایات وغیرہ۔
اب اگر اس قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث کا ذکر کریں جس میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معوذتین سے انکار ثابت ہوتا ہے تو وہ روایت ان اصولوں کی بناء پر معلول ہوں گی یا پھر شاذ۔
➊ یہ روایات معلول میں شامل ہوں گی، کیوں کہ اس میں واضح علت یہ ہے کہ سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ان قرأتوں کے خلاف ہیں، جو ان سے بطریق متواتر ثابت ہیں، جن میں معوذتین کا ذکر موجود ہے۔
➋ مسند احمد میں جہاں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے،
«انهما ليستا من كتاب الله.» یہ روایت اصولوں کی روشنی میں شاذ قرار دی جائے گی اور شاذ روایت حجت نہیں ہوتی۔
لہذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن کا حصہ جانتے تھے، نہ ماننے کی دلیل اصولوں کی روشنی میں شاذ قرار دی جائے گی۔
«و الله اعلم»