صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
98. سورة {لَمْ يَكُنْ} :
98. باب: سورۃ «لم يكن» کی تفسیر۔
(98) SURAT LAM YAKUN (or AL-BAIYYINAH (The Clear Evidence)
حدیث نمبر: Q4959-2
Save to word اعراب English
يقال: المطلع هو الطلوع والمطلع الموضع الذي يطلع منه، انزلناه: الهاء كناية، عن القرآن إنا انزلناه خرج مخرج الجميع، والمنزل هو الله، والعرب توكد فعل الواحد، فتجعله بلفظ الجميع ليكون اثبت واوكد.يُقَالُ: الْمَطْلَعُ هُوَ الطُّلُوعُ وَالْمَطْلِعُ الْمَوْضِعُ الَّذِي يُطْلَعُ مِنْهُ، أَنْزَلْنَاهُ: الْهَاءُ كِنَايَةٌ، عَنِ الْقُرْآنِ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ خَرَجَ مَخْرَجَ الْجَمِيعِ، وَالْمُنْزِلُ هُوَ اللَّهُ، وَالْعَرَبُ تُوَكِّدُ فِعْلَ الْوَاحِدِ، فَتَجْعَلُهُ بِلَفْظِ الْجَمِيعِ لِيَكُونَ أَثْبَتَ وَأَوْكَدَ.
‏‏‏‏ «مطلع» بہ فتحہ (مصدر ہے) طلوع کے معنوں میں اور «مطلع» بہ کسر لام (جیسے کسائی نے پڑھا ہے) وہ مقام جہاں سے سورج نکلے۔ «انا أنزلناه‏» میں ضمیر قرآن کی طرف پھرتی ہے (گو کہ قرآن کا ذکر اوپر نہیں آیا ہے مگر اس کی شان بڑھانے کے لیے اضمار قبل الذکر کیا) «أنزلناه‏» صیغہ جمع متکلم کا ہے حالانکہ اتارنے والا ایک ہی ہے یعنی اللہ پاک مگر عربی میں واحد کو «جميع» اور اثبات کے لیے بہ صیغہ جمع لاتے ہیں۔

حدیث نمبر: Q4959
Save to word اعراب English
منفكين: زائلين قيمة القائمة دين القيمة اضاف الدين إلى المؤنث.مُنْفَكِّينَ: زَائِلِينَ قَيِّمَةٌ الْقَائِمَةُ دِينُ الْقَيِّمَةِ أَضَافَ الدِّينَ إِلَى الْمُؤَنَّثِ.
‏‏‏‏ «منفكين‏» کے معنی چھوڑنے والے۔ «قيمة‏» قائم اور مضبوط حالانکہ دین مذکر ہے مگر اس کو مؤنث یعنی «قيمة‏» کی طرف مضاف کیا، دین کو ملت کے معنی میں لیا جو مؤنث ہے۔

حدیث نمبر: 4959
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، سمعت قتادة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم لابي:" إن الله امرني ان اقرا عليك لم يكن الذين كفروا سورة البينة آية 1، قال: وسماني، قال: نعم، فبكى".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُبَيٍّ:" إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة البينة آية 1، قَالَ: وَسَمَّانِي، قَالَ: نَعَمْ، فَبَكَى".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورۃ «لم يكن الذين كفروا‏» پڑھ کر سناؤں۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام بھی لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس پر وہ رونے لگے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik: The Prophet said to Ubai (bin Ka`b). "Allah has ordered me to recite to you:--'Those who disbelieve among the people of the Scripture and among the idolators are not going to stop (from their disbelief.') (Sura 98) Ubai said, "Did Allah mention me by name?" The Prophet said, "Yes." On that, Ubai wept.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 483


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4961أنس بن مالكأمرني أن أقرئك القرآن
   صحيح البخاري3809أنس بن مالكأمرني أن أقرأ عليك
   صحيح البخاري4960أنس بن مالكأمرني أن أقرأ عليك القرآن
   صحيح البخاري4959أنس بن مالكالله أمرني أن أقرأ عليك لم يكن الذين كفروا قال وسماني قال نعم فبكى
   صحيح مسلم1864أنس بن مالكأمرني أن أقرأ عليك
   صحيح مسلم6343أنس بن مالكالله أمرني أن أقرأ عليك لم يكن الذين كفروا قال وسماني قال نعم قال فبكى
   صحيح مسلم1865أنس بن مالكالله أمرني أن أقرأ عليك لم يكن الذين كفروا قال وسماني لك قال نعم قال فبكى
   صحيح مسلم6343أنس بن مالكالله أمرني أن أقرأ عليك قال آلله سماني لك قال الله سماك لي قال فجعل أبي يبكي

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4959 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4959  
حدیث حاشیہ:
یہ سورت مدنی ہے۔
اس میں آٹھ آیات ہیں۔
خوشی کے مارے رونے لگے کہ کہاں میں ایک ناچیز بندہ اور کہاں وہ شہنشاہ ارض وسماء۔
بعضوں نے کہا کہ ڈر سے رو دیئے کہ اس عنایت و نوازش کا شکریہ تجھ سے کیونکر ہوسکے گا۔
عرب کے اہل کتاب اور مشرکین اپنے خیالات باطلہ واوہام فاسدہ پر اس قدر قانع تھے کہ وہ کسی قیمت پر بھی ان کو چھوڑنے والے نہ تھے لیکن اللہ نے ایک ایسا بہترین رسول جو مجسم دلیل تھا مبعوث فرمایا کہ ان کی پاکیزہ تعلیمات سے کتنے خوش نصیب راہ راست پر آ گئے۔
کتنوں کو ہدایت نصیب ہوئی۔
سورۃ بینہ میں اللہ پاک نے اسی مضمون کو بہترین انداز میں بیان فرمایا ہے اور قرآن پاک کو ﴿صُحُفا مُطَهرَة﴾ اور رسول کریم کو لفظ بینۃ سے تعبیر فرمایا ہے۔
صدق اللہ تبارك وتعالیٰ آمنا به وصدقنا ربنافاکتبنا مع الشاھدین (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4959   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1864  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن سناؤں۔ انہوں نے پوچھا، کیا اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو میرا نام لے کرفرمایا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے تیرا نام لے کر فرمایا ہے۔ تو حضرت ابی رونے لگے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1864]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اہل علم اور صاحب کمال کی قدر دانی کے لیے اس کو ایک اعلیٰ اور افضل شخصیت کا قرآن سنانا ایک پسندیدہ طرز عمل ہے،
جس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس کو شرف و سعادت نصیب ہوتا ہے۔
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے قرآن میں مہارت و شغف کی بنا پر یہ بلند مقام نصیب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام لے کر اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو قرآن مجید سنانے کی سعادت سے مشرف فرمانے کا حکم دیا،
تاکہ آئندہ بھی کوئی استاد اپنے شاگرد کو قرآن سنانے میں عار محسوس نہ کرے اور تاکہ شاگرد اپنے استاد کا لہجہ اور طرز اور اچھی طرح محفوظ کرے اور آگے اپنے شاگردوں کو اسی طرح پڑھائے اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس دوہری سعادت کے حصول پر اس قدر فرحت و مسرت حاصل ہوئی کہ وہ اس کا حق شکر ادا نہ کر سکتے تھے،
اس لیے روپڑے کہ میں کیا،
میری حیثیت کیا،
اور کہاں اتنا شرف کہ رب کائنات نام لے کر،
اپنے رسول کو مجھے یہ شرف عنایت فرمانے کا حکم صادر فرمائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1864   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1865  
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہں سورۃ ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ سناؤں۔ انھوں نے پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے سامنے میرا نام لیا ہے؟یا آپﷺ کو میرا نام بتایا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ تو وہ رونے لگے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1865]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سورہ ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ ایک مختصر سورت ہے جس میں دین کے اصول و مبادی اور اہم ارکان کو بیان کیا گیا ہے کافر و مشرک لوگوں کا انجام و مقام اور ایمان و عمل صالح سے متصف لوگوں کا شرف و قدراور بدلہ بیان کیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1865   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4960  
4960. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔ حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے تمہارا مجھ سے نام لیا تھا۔ حضرت ابی بن کعب یہ سن کر رونے لگے۔ قتادہ نے بیان کیا: مجھے خبر دی گئی کہ آپ ﷺ نے انہیں ﴿لَمْ يَكُنِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ﴾ پڑھ کر سنائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4960]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قرآن پاک کے حافظ قاری ہونے کی بنا پر اللہ کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ خود اللہ پاک نے اپنے پیارے رسول کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سامنے قرآن پاک سنانے کا حکم فرمایا، اس قسمت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4960   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4961  
4961. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پاک پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے پھر عرض کی: میرا ذکر رب العالمین کی بارگاہ میں ہوا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4961]
حدیث حاشیہ:
خوشی اور مسرت کے آنسو تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4961   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4961  
4961. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پاک پڑھ کر سناؤں۔ انہوں نے پوچھا: کیا اللہ تعالٰی نے آپ سے میرا نام لیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ حضرت ابی بن کعب ؓ نے پھر عرض کی: میرا ذکر رب العالمین کی بارگاہ میں ہوا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4961]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کریم کے حافظ اور بہترین قاری تھے اس بنا پر رب العالمین کے ہاں اتنے مقبول ہوئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ آپ کو قرآن سنائیں۔
اس سے ان کی خوش قسمتی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

اس بات کا احتمال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہو۔
کہ اپنی امت میں سے کسی صحابی کو قرآن سنائیں، کسی کے نام سے صراحت نہ ہو۔
اس لیے حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا تھا؟ جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہو گیا۔
کہ اللہ رب العزت نے ان کا نام لیا تھا، تو مارے خوشی کے رونے لگے کہ مالک کائنات نے اس بندہ عاجز کو شرف بخشا ہے۔

بعض اہل علم سے یہ بھی منقول ہے کہ حضرت ابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ رونا خوف کی بنا پر تھا کہ اس ناچیز پر غیر معمولی عنایات و نوازشات کا شکر مجھ سے ادا نہ ہو سکے گا۔
ہمارے رجحان کے مطابق پہلے معنی زیادہ وزنی اور قرین قیاس ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4961   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.