وقال مجاهد: وتبتل: اخلص، وقال الحسن: انكالا: قيودا، منفطر به: مثقلة به، وقال ابن عباس: كثيبا مهيلا: الرمل السائل، وبيلا: شديدا.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَتَبَتَّلْ: أَخْلِصْ، وَقَالَ الْحَسَنُ: أَنْكَالًا: قُيُودًا، مُنْفَطِرٌ بِهِ: مُثْقَلَةٌ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَثِيبًا مَهِيلًا: الرَّمْلُ السَّائِلُ، وَبِيلًا: شَدِيدًا.
مجاہد نے کہا کہ «تبتل» کے معنی خالص اسی کا ہو جا اور امام حسن بصری نے فرمایا «أنكالا» کا معنی بیڑیاں ہیں۔ «منفطر به» اس کے سبب سے بھاری ہو جائے گا، بھاری ہو کر پھٹ جائے گا۔ ابن عباس نے کہا «كثيبا مهيلا» پھسلتی بہتی ریت۔ «وبيلا» کے معنی سخت کے ہیں۔
قال ابن عباس: عسير: شديد، قسورة: ركز الناس واصواتهم وكل شديد قسورة، وقال ابو هريرة: القسورة قسور الاسد الركز الصوت، مستنفرة: نافرة مذعورة.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَسِيرٌ: شَدِيدٌ، قَسْوَرَةٌ: رِكْزُ النَّاسِ وَأَصْوَاتُهُمْ وَكُلُّ شَدِيدٍ قَسْوَرَةٌ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: الْقَسْوَرَةُ قَسْوَرٌ الْأَسَدُ الرِّكْزُ الصَّوْتُ، مُسْتَنْفِرَةٌ: نَافِرَةٌ مَذْعُورَةٌ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عسير» کا معنی سخت۔ «قسورة» کا معنی لوگوں کا شور و غل۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا «قسورة» شیر کو کہتے ہیں اور ہر سخت اور زور دار چیز کو «قسورة» کہتے ہیں۔ «مستنفرة» بھڑکنے والی۔
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن علي بن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير، سالت ابا سلمة بن عبد الرحمن، عن اول ما نزل من القرآن، قال: يايها المدثر سورة المدثر آية 1، قلت: يقولون: اقرا باسم ربك الذي خلق سورة العلق آية 1، فقال ابو سلمة: سالت جابر بن عبد الله رضي الله عن ذلك، وقلت له مثل الذي قلت، فقال جابر: لا احدثك إلا ما حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" جاورت بحراء، فلما قضيت جواري هبطت، فنوديت، فنظرت عن يميني فلم ار شيئا، ونظرت عن شمالي فلم ار شيئا، ونظرت امامي فلم ار شيئا، ونظرت خلفي فلم ار شيئا، فرفعت راسي فرايت شيئا، فاتيت خديجة، فقلت: دثروني وصبوا علي ماء باردا، قال: فدثروني وصبوا علي ماء باردا، قال: فنزلت يايها المدثر {1} قم فانذر {2} وربك فكبر {3} سورة المدثر آية 1-3".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ، وَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ الَّذِي قُلْتَ، فَقَالَ جَابِرٌ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي هَبَطْتُ، فَنُودِيتُ، فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ عَنْ شِمَالِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ أَمَامِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، وَنَظَرْتُ خَلْفِي فَلَمْ أَرَ شَيْئًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ شَيْئًا، فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي وَصُبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَدَثَّرُونِي وَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً بَارِدًا، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} سورة المدثر آية 1-3".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا کہ قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق» سب سے پہلے نازل ہوئی۔ ابوسلمہ نے اس پر کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا اور جو بات ابھی تم نے مجھ سے کہی وہی میں نے بھی ان سے کہی تھی لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میں تم سے وہی حدیث بیان کرتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں غار حرا میں ایک مدت کے لیے خلوت نشیں تھا۔ جب میں وہ دن پورے کر کے پہاڑ سے اترا تو مجھے آواز دی گئی، میں نے اس آواز پر اپنے دائیں طرف دیکھا لیکن کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پھر بائیں طرف دیکھا ادھر بھی کوئی چیز دکھائی نہیں دی، سامنے دیکھا ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ پیچھے کی طرف دیکھا اور ادھر بھی کوئی چیز نہیں دکھائی دی۔ اب میں نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا تو مجھے ایک چیز دکھائی دی۔ پھر میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو۔ فرمایا کہ پھر انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا اور ٹھنڈا پانی مجھ پر بہایا۔ فرمایا کہ پھر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها المدثر * قم فأنذر * وربك فكبر» یعنی ”اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھئیے پھر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے۔“
Narrated Yahya bin Abi Kathir: I asked Aba Salama bin `Abdur-Rahman about the first Sura revealed of the Qur'an. He replied "O you, wrapped-up (i.e. Al Muddaththir)." I said, "They say it was, 'Read, in the Name of your Lord Who created,' (i.e. Surat Al-`Alaq (the Clot)." On that, Abu Salama said, "I asked Jabir bin `Abdullah about that, saying the same as you have said, whereupon he said, 'I will not tell you except what Allah's Messenger had told us. Allah's Messenger said, "I was in seclusion in the cave of Hiram', and after I completed the limited period of my seclusion. I came down (from the cave) and heard a voice calling me. I looked to my right, but saw nothing. Then I looked up and saw something. So I went to Khadija (the Prophet's wife) and told her to wrap me up and pour cold water on me. So they wrapped me up and poured cold water on me." Then, 'O you, (Muhammad) wrapped up! Arise and warn,' (Surat Al Muddaththir) was revealed." (74.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 444
جاورت بحراء فلما قضيت جواري هبطت فنوديت فنظرت عن يميني فلم أر شيئا ونظرت عن شمالي فلم أر شيئا ونظرت أمامي فلم أر شيئا ونظرت خلفي فلم أر شيئا فرفعت رأسي فرأيت شيئا فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا قال فدثروني وصبوا علي ماء باردا قال فنزلت يأي
جاورت في حراء فلما قضيت جواري هبطت فاستبطنت الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فإذا هو جالس على كرسي بين السماء والأرض فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا وأنزل علي يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر
بينا أنا أمشي إذ سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه رعبا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله يأيها المدثر إلى والرجز فاهجر
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فزملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله فاهجر
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله والرجز ف
بينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالسا على كرسي بين السماء والأرض قال رسول الله فجئثت منه فرقا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله تبارك و يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر وثيابك
جاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري نزلت فاستبطنت بطن الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فلم أر أحدا ثم نوديت فنظرت فلم أر أحدا ثم نوديت فرفعت رأسي فإذا هو على العرش في الهواء يعني جبريل فأخذتني رجفة شديدة فأتيت خديجة فقلت دثرو
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4922
حدیث حاشیہ: پہلے سورۃ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ﴾ ہی نازل ہوئی تھی بعد میں یہ سلسلہ ایک مدت تک بند رہا۔ پھر پہلی آیت ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ﴾ ہی نازل ہوئی (کما في کتب التفسیر)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4922
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922
� تخريج الحديث: [101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]
فھم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52] پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 101
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4922
حدیث حاشیہ: قرآن مجید کی سب سے پہلے کون سی آیات نازل ہوئیں اس کے متعلق دو مشہور قول حسب ذیل ہیں۔
۔ جمہور اہل علم کا قول ہے کہ سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔
۔ سب سے پہلے سورہ مدثر کا نزول ہوا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے۔ ان دونوں اقوال میں تطبیق کی حسب ذیل صورتیں بیان کی گئی ہیں۔
۔ علی الاطلاق پہلے سورہ علق کی آیات نازل ہوئیں لیکن پوری کامل سورت پہلے مدثر نازل ہوئی۔
۔ زمانہ فترت سے پہلےسورہ علق کی آیات نازل ہوئیں اور زمانہ فترت کے بعد سب سے پہلے سورہ مدثر نازل ہوئی۔
۔ سورہ علق کی آیات کے نزول کے لیے کوئی سبب پیش نہیں آیا جبکہ سبب کے پیش آنے کے بعد سب سے پہلے سورہ مدثر نازل ہوئی۔ ویسے ترجیح پہلے موقف کو ہے کیونکہ حدیث جابر میں ہے کہ جب میں نے سر اٹھایا تو وہی فرشتہ دیکھا جو مجھے حراء میں نظر آیا تھا جو زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے فرشتہ وحی کو دیکھ چکے تھے اور اس کی آپ سے ملاقات ہو چکی تھی۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4922
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 406
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ جو صحابہ کرام ؓ میں سے تھے، بندش ِوحی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ”دریں اثنا کہ میں چل رہا تھا، میں نے آسمان سے آواز سنی تو میں نے سر اٹھایا، دیکھا کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غارِ حرا میں آیا تھا، وہ آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں خوف زدہ ہو کر گھبرا کر گھر واپس آگیا، اور میں نے کہا مجھے کپڑا اوڑھاؤ! مجھ پر کپڑا ڈالو، تو گھر والوں نے مجھ پر کپڑا ڈال دیا۔ اس پر اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:406]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) فَتْرَةُ الْوَحْيِ: وحی کی بندش، رکاوٹ، اس کے تسلسل کا قائم نہ رہنا۔ (2) فَجُئِثْتُ: میں مرعوب اور خوف زدہ ہو گیا، گھبرا گیا۔ جأث سے ماخوذ ہے۔ (3) فَرَقٌ: خوف و ڈر۔ فوائد ومسائل: وحی کے رک جانے کے بعد سب سے پہلے اترنے والی وحی سورہ مدثر کی آیات ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 406
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 409
یحییٰ نے ابو سلمہ ؒ سے سوال کیا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ نازل ہوا؟ اس نے جواب دیا: ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: کیا ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ تو ابو سلمہؒ نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ اتارا گیا؟ تو جابر نے جواب دیا ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ جابر ؓ نے کہا میں تمھیں وہی بتاتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے ایک ماہ حرا میں گزارا، جب میں نے اپنا اعتکاف... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:409]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) جَاوَرْتُ: میں نے مجاورت و اعتکاف کیا، مصدر جوار ہے، پڑوس میں رہنا، کسی جگہ رک جانا۔ (2) اسْتَبْطَنْتُ: بطن سے ماخوذ ہے، اندر چلے جانا، میں وادی کے اندر چلا گیا۔ (3) عَرْشٌ: چارپائی، کرسی، تخت۔ (4) رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ: سخت کپکپی، شدید لرزہ، سخت بے چینی۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اترنے والی وحی، سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں، لیکن اگر تمام احادیث پر مجموعی طور پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سب سے پہلے اترنے والی وحی سورۂ اقراء کی ابتدائی آیات ہیں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت (252) میں صاف موجود ہے کہ پہلی وحی، غار حراء میں اتری جس میں جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو تین دفعہ دبایا، اورجابرؓ کی حدیث (407 اور 408) میں تصریح موجود ہے، کہ فترت وحی کے بعد سب سے پہلے اترنے والی آیات سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں۔ گویا پہلی وحی کے بعد وحی کی آمد رک گئی، پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ آغاز ہوا، لیکن سورۂ مدثر کی آیات کے بعد وحی میں تسلسل پیدا ہوگیا۔ نیز اس روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ وحی لانے والا فرشتہ وہی تھا، جو "جَاءَنِيْ بِحَرَاء" ”میرے پاس حرام میں آچکا تھا“ اور سورۂ مدثر کی آیات، غار حراء کے بعد اتریں ہیں، جبکہ پہلی وحی کا نزول، غار حرام میں ہو چکا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4924
4924. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے عرض کی: مجھے بتایا گیا ہے کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ ، سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ کے پہلے نازل ہونے کی خبر ملی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس کی خبر دے رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے خود بیان فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے غار حرا میں خلوت گزینی اختیار کی، جب وہ مدت پوری کر چکا تو نیچے اترا اور وادی کے درمیان میں پہنچا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے دکھائی دیا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4924]
حدیث حاشیہ: سورۃ ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ﴾ کے بعد یہ پہلی آیات ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں ان میں آپ کو تبلیغ اسلام کا حکم دیا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4924
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3238
3238. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے۔ "مجھ پر وحی کا نزول کچھ عرصہ بند رہا۔ اس دوران میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اس فرشتے کو دیکھا جو میرے پاس غار حراء میں آیا تھا کہ وہ زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اسے دیکھ کر اس قدر گھبرایا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو۔ مجھ کمبل اوڑھا دو۔ تو اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں "اے کمبل اوڑھنے والے!کھڑے ہو جاؤ۔ پھرانھیں متنبہ کرو۔۔۔ اور بتوں سے دور رہو۔ "تک، (راوی حدیث) حضرت ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں الرجز سے بت مراد ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3238]
حدیث حاشیہ: اسلام میں بت پرستی ایک گندا عمل ہے۔ اسی لیے بت پرستوں کو ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾(التوبة: 28) کہا گیا ہے کہ شرک کرنے والے گندے ہیں۔ وہ بتوں کے پجاری ہوں یا قبروں کے ہر دو کا عنداللہ ایک ہی درجہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3238
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4926
4926. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ بندش وحی کا تذکرہ فرما رہے تھے، فرمایا: ”ایک دفعہ میں نے چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ میں نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرام میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اس قدر خوفزدہ ہوا کہ مارے ڈر کے زمین پر گر پڑا، پھر میں اپنے گھر آیا تو اپنے اہل خانہ سے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو مجھے کمبل اوڑھا دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ ) سے لے کر (فَاهْجُرْ) تک۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ الرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی کا سلسلہ تیز ہو گیا اور مسلسل آنا شروع ہو گئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4926]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بت پرستی نہیں کی تھی۔ مگر آپ کی قوم بت پرست تھی۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکیدا کہا گیا کہ آپ بت پرست قوم کا ساتھ بالکل چھوڑ دیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4926
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3238
3238. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ فر رہے تھے۔ "مجھ پر وحی کا نزول کچھ عرصہ بند رہا۔ اس دوران میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی۔ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اس فرشتے کو دیکھا جو میرے پاس غار حراء میں آیا تھا کہ وہ زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اسے دیکھ کر اس قدر گھبرایا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھادو۔ مجھ کمبل اوڑھا دو۔ تو اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں "اے کمبل اوڑھنے والے!کھڑے ہو جاؤ۔ پھرانھیں متنبہ کرو۔۔۔ اور بتوں سے دور رہو۔ "تک، (راوی حدیث) حضرت ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں الرجز سے بت مراد ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3238]
حدیث حاشیہ: 1۔ دین اسلام میں بت پرستی ایک گندا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بت پرستوں کو نجس اورپلید قراردیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ﴾”مشرکین نجس اور پلید ہیں۔ انھیں مسجد حرام کے قریب نہ آنے دو۔ “(التوبة: 28/9) شرک کرنے والے اللہ کے ہاں گندے اور پلید ہیں، خواہ بتوں کے پجاری ہوں یا قبروں کے مجاور۔ اللہ کے ہاں دونوں کا ایک ہی درجہ ہے۔ 2۔ بہرحال امام بخاری ؒنے اس حدیث سے فرشتوں کے وجود پر دلیل لی ہے۔ اور ان کی کارکردگی بیان کی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3238
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4923
4923. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں غار حرا میں تنہائی اختیار کیے ہوئے تھا۔“ یہ روایت بھی عثمان بن عمر کی حدیث کی طرح ہے جو انہوں نے علی بن مبارک سے بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4923]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عثمان بن عمر کی حدیث کو صحیح بخاری میں بیان نہیں کیا۔ البتہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ اس میں ہے کہ جب میں نے اوپر سر اٹھایا تو فرشتہ وحی کو دیکھا جو ایک تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور تخت زمین و آسمان کے درمیان تھا میں نے اسے دیکھا تو مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا۔ آگے وہی قصہ بیان ہوا ہے جو پہلی حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 410۔ (161) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیغام دیا کہ اب سونے کا وقت گزر چکا ہے انھیں اور اہل مکہ کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں جب وہ ایمان نہ لائیں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4924
4924. حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے کہ میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے پوچھا: قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے عرض کی: مجھے بتایا گیا ہے کہ ﴿ٱقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ ، سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا تھا کہ قرآن کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ مجھے ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِى خَلَقَ ﴿١﴾ کے پہلے نازل ہونے کی خبر ملی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اس کی خبر دے رہا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے خود بیان فرمایا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے غار حرا میں خلوت گزینی اختیار کی، جب وہ مدت پوری کر چکا تو نیچے اترا اور وادی کے درمیان میں پہنچا تو مجھے آواز دی گئی۔ میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے دکھائی دیا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4924]
حدیث حاشیہ: 1۔ دنیا میں بڑے بڑے حکمران اور ان کی بڑی بڑی حکومتیں ہیں۔ لیکن اللہ کی کبریائی کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن سے یہ پیغام دیا گیا کہ آپ کے کام میں بڑی بڑی طاقتیں حائل ہو سکتی ہیں۔ ان کی ذرا پروانہ کریں بلکہ صاف صاف کہہ دیں کہ میرا رب ان سب سے بڑا ہے جو میری دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ 2۔ بہر حال اللہ کی کبریائی کانقش جس آدمی کے دل پر جما ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ہی ساری دنیا سے لڑ جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ تکبیر یعنی اللہ اکبر کی بڑی اہمیت ہے نیز اذان میں چھ بار یہ کلمہ دہرایا جاتا ہے اور ہر نماز کا افتتاح اسی کلمہ سے ہوتا ہے پھر نماز کی ہر رکعت میں متعدد مرتبہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے یہ اس لیے ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے ہر وقت اللہ کی کبریائی کا تصور موجود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4925
4925. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا۔۔ جبکہ آپ درمیان میں وحی کا سلسلہ رک جانے کا حال بیان فرما رہے تھے۔۔ آپ نے فرمایا: ”میں چل رہا تھا کہ اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی۔ میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس کے ڈر سے گھبرا گیا۔ پھر میں گھر واپس آیا تو میں نے (خدیجہ ؓ سے) کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ انہوں نے مجھے کپڑا اوڑھا دی، پھر اللہ تعالٰی نے یہ وحی نازل کی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ ۔۔۔ وَٱلرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴿٥﴾ ۔“ یہ وحی نماز فرض کیے جانے سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ وَٱلرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4925]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے آئے تھے وہ صرف عقائد واخلاق کی نجاستوں ہی میں مبتلا نہیں تھا بلکہ طہارت ونظافت (پاکیزگی اور صفائی) کے ابتدائی تصور سے بھی ناآشنا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا اس لیے ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت و نظافت (پاکیزگی اور صفائی) کا ایک اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اس کے علاوہ روح کی پاکیزگی کے لیے بھی جسم اور لباس کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔ 2۔ اس ابتدائی سبق کا ہی ثمرہ ہے کہ ہماری حدیث اور فقہ کی ہر کتاب ”کتاب الطہارت“ سے شروع ہوتی ہے جس میں پاکی اور ناپاکی کے فرق اور طہارت کے طریقوں کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4925
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4926
4926. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ بندش وحی کا تذکرہ فرما رہے تھے، فرمایا: ”ایک دفعہ میں نے چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ میں نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرام میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اس قدر خوفزدہ ہوا کہ مارے ڈر کے زمین پر گر پڑا، پھر میں اپنے گھر آیا تو اپنے اہل خانہ سے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو مجھے کمبل اوڑھا دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ ) سے لے کر (فَاهْجُرْ) تک۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ الرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی کا سلسلہ تیز ہو گیا اور مسلسل آنا شروع ہو گئی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4926]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بت پرستی نہیں کی تھی مگر آپ کی قوم بت پرست تھی یہ حکم دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے دیا جا رہا ہے۔ 2۔ اوپرالرجز عذاب کے ہم معنی بتایا گیا ہے کیونکہ ان کی پوجا کرنے سے انسان عذاب تک پہنچ جاتا ہے۔ گویا یہ عذاب الٰہی کا سبب ہیں اس لیے انھیں عذاب کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4926