2. باب: آیت کی تفسیر ”سو حمل والیوں کی عدت ان کے بچے کا پیدا ہو جانا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا“۔
(2) Chapter. "...And for those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead), their Idda (prescribed period) is until they lay down their burdens, and whoever keeps his duty to Allah and fears Him, He will make his matter easy for him.” (V.63:4)
(مرفوع) وقال:سليمان بن حرب، وابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن محمد، قال: كنت في حلقة فيها عبد الرحمن بن ابي ليلى، وكان اصحابه يعظمونه، فذكروا له، فذكر آخر الاجلين، فحدثت بحديث سبيعة بنت الحارث، عن عبد الله بن عتبة، قال: فضمز لي بعض اصحابه، قال محمد: ففطنت له، فقلت: إني إذا لجريء إن كذبت على عبد الله بن عتبة وهو في ناحية الكوفة فاستحيا، وقال: لكن عمه لم يقل ذاك، فلقيت ابا عطية مالك بن عامر، فسالته، فذهب يحدثني حديث سبيعة، فقلت: هل سمعت عن عبد الله فيها شيئا؟ فقال: كنا عند عبد الله، فقال: اتجعلون عليها التغليظ ولا تجعلون عليها الرخصة لنزلت سورة النساء القصرى بعد الطولى واولات الاحمال اجلهن ان يضعن حملهن سورة الطلاق آية 4.(مرفوع) وَقَالَ:سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى، وَكَانَ أَصْحَابُهُ يُعَظِّمُونَهُ، فَذَكَرُوا لَهُ، فَذَكَرَ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، فَحَدَّثْتُ بِحَدِيثِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: فَضَمَّزَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَفَطِنْتُ لَهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ فَاسْتَحْيَا، وَقَالَ: لَكِنْ عَمُّهُ لَمْ يَقُلْ ذَاكَ، فَلَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَذَهَبَ يُحَدِّثُنِي حَدِيثَ سُبَيْعَةَ، فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهَا شَيْئًا؟ فَقَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ عَلَيْهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ سورة الطلاق آية 4.
اور سلیمان بن حرب اور النعمان نے بیان کیا، کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے اور ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرات کی بات ہو گی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہو گئے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تو یہ بات نہیں کرتے تھے۔ (ابن سیرین نے بیان کیا کہ) پھر میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر (جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ حاملہ ہو۔ عدت کی مدت کو طول دے کر) سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت و سہولت دینے کے لیے تیار نہیں، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورۃ نساء یعنی (سورۃ الطلاق) بڑی سورۃ النساء کے بعد نازل ہوئی ہے اور کہا «وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن» الایۃ اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4910
حدیث حاشیہ: لمبی مدت سے جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو چار ماہ اور دس دن مراد ہیں۔ حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا گیا ہو ان کی عدت سے متعلق عدت کے سلسلے میں جمہور کا یہی مسلک ہے کہ بچہ کا پیدا ہو جانا ہی اس کی عدت ہے اوراس کے بعد وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے خواہ مدت طویل ہو یا مختصر۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک تھا پس ان کے بارے میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا خیال صحیح نہیں تھا جیسا کہ مالک بن عامر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدت طویل کے قائل تھے مگر یہ خیال ان کا صحیح نہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو عام عربی محاورہ کے مطابق اپنا بھتیجا کہہ دیا جبکہ ان میں کوئی ظاہری قرابت نہ تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4910
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4910
حدیث حاشیہ: 1۔ لمبی مدت سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہوتو اگر چارماہ دس دن کے اندر اندر بچہ پیدا نہ ہو تو سے وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا اور اس سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو اسے چار ماہ دس دن پورے کرنے ہوں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ أبعد الأجلین کے قائل تھے۔ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کہتے تھے کہ میرے موقف کے حامی ہیں لیکن ان کا یہ خیال صحیح نہیں تھا جیسا کہ ابوعطیہ مالک بن عامر نے اس کی صراحت کی ہے۔ 2۔ بہرحال جس حاملہ عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کی عدت وضع حمل ہے۔ اس کے بعد اسے عقدثانی کرنے کی اجازت ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ وضع حمل، خواہ دیر سے ہو یا جلدی، اسے بچہ پیدا ہونے تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کتاب الطلاق میں پیش کی جائے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4910