صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
7. بَابُ قَوْلِهِ: {تُرْجِئُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكَ} :
7. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان (ازواج مطہرات) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا ہو ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں“۔
(7) Chapter. The Statement of Allah: “You (O Muhammad ) can postpone (the turn of) whom you will of them (your wives), and you may receive whom you will. And whomsoever you desire of those whom you have set aside (her turn temporarily), it is no sin on you (to recieve her again)..." (V.33:51)
حدیث نمبر: 4789
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حبان بن موسى، اخبرنا عبد الله، اخبرنا عاصم الاحول، عن معاذة، عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يستاذن في يوم المراة منا بعد ان انزلت هذه الآية: ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك سورة الاحزاب آية 51، فقلت لها: ما كنت تقولين؟، قالت: كنت، اقول له:" إن كان ذاك إلي فإني لا اريد يا رسول الله ان اوثر عليك احدا". تابعه عباد بن عباد، سمع عاصما.(مرفوع) حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَسْتَأْذِنُ فِي يَوْمِ الْمَرْأَةِ مِنَّا بَعْدَ أَنْ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكَ سورة الأحزاب آية 51، فَقُلْتُ لَهَا: مَا كُنْتِ تَقُولِينَ؟، قَالَتْ: كُنْتُ، أَقُولُ لَهُ:" إِنْ كَانَ ذَاكَ إِلَيَّ فَإِنِّي لَا أُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أُوثِرَ عَلَيْكَ أَحَدًا". تَابَعَهُ عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ، سَمِعَ عَاصِمًا.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو عاصم احول نے خبر دی، انہیں معاذہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی «ترجئ من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء ومن ابتغيت ممن عزلت فلا جناح عليك‏» کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو طلب کر لیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر (ازواج مطہرات) میں سے کسی کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس جانا چاہتے تو جن کی باری ہوتی ان سے اجازت لیتے تھے (معاذہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ایسی صورت میں آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو یہ عرض کر دیتی تھی کہ یا رسول اللہ! اگر یہ اجازت آپ مجھ سے لے رہے ہیں تو میں تو اپنی باری کا کسی دوسرے پر ایثار نہیں کر سکتی۔ اس روایت کی متابعت عباد بن عباد نے کی، انہوں نے عاصم سے سنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Mu`adha: `Aisha said, "Allah's Messenger used to take the permission of that wife with whom he was supposed to stay overnight if he wanted to go to one other than her, after this Verse was revealed:-- "You (O Muhammad) can postpone (the turn of) whom you will of them (your wives) and you may receive any (of them) whom you will; and there is no blame on you if you invite one whose turn you have set aside (temporarily). (33.51) I asked Aisha, "What did you use to say (in this case)?" She said, "I used to say to him, "If I could deny you the permission (to go to your other wives) I would not allow your favor to be bestowed on any other person."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 312


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4789عائشة بنت عبد اللهإن كان ذاك إلي فإني لا أريد أن أوثر عليك أحدا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4789 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4789  
حدیث حاشیہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جن عورتوں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کر دیا تھا ان میں سے کسی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ نہیں رکھا اگر چہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اسے مباح قرار دیا تھا لیکن بہر حال یہ آپ کی منشا پر موقوف تھا۔
آنحضرت کو یہ مخصوص اجازت تھی۔
قسطلانی نے کہا گو اللہ پاک نے اس آیت میں آپ کو اجازت دی تھی کہ آپ پر باری کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے لیکن آپ نے باری کو قائم رکھا اور کسی بیوی کی باری میں آپ دوسری بیوی کے گھر نہیں رہے۔
عباد بن عباد کی روایت کو ابن مردویہ نے وصل کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو طبری نے نقل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4789   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4789  
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کی اجازت تھی کہ آپ جس بیوی کے پاس چاہیں قیام کر سکتے ہیں۔
آپ پر باری مقرر کرنا لازم نہیں تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے اس کا اہتمام کیا جب سفر میں جاتے تو قرعہ اندازی کر کے اپنے ہمراہ کسی بیوی کو لے جاتے۔
(صحیح البخاري، الھبة وفضلها و التعریض علیها، حدیث: 2593)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری سنگین ہو گئی تو آپ نے دوسری بیویوں سے میرے گھر رہنے کی اجازت چاہی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے دلی رضامندی سے آپ کو اجازت دے دی۔
(صحیح البخاري، الھبة وفضلها و التعریض علیها، حدیث: 2588)
آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کو بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنے میں اختیار دیا گیا تھا آپ جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں یعنی اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4789   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.