6. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ اپنے دل میں وہ بات چھپاتے رہے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہی تھا اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے“۔
(6) Chapter. The Statement of Allah: “And (remember) when you said to him (Zaid bin Haritha -the freed slave of the Prophet ) on whom Allah has bestowed grace (by guiding him to Islam) and you (O Muhammad too) have done favour (by manumitting him): ’Keep you wife to yuorself and fear Allah.’ But you did hide in yourself (i.e., what Allah has already made known to you that He will give her to you in marriage) that which Allah will make manifest, you did fear people (i.e., Muhammad married the divorced wife of his manumitted slave) whereas Allah had a better right that you should fear Him...” (V.33:37)
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معلی بن منصور نے بیان کیا، اسے حماد بن زید نے کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه»”اور آپ اپنے دل میں وہ چھپاتے رہے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔“ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کے معاملہ میں نازل ہوئی تھی۔
Narrated Anas bin Malik: The Verse: 'But you did hide in your mind that which Allah was about to make manifest.' (33.37) was revealed concerning Zainab bint Jahsh and Zaid bin Haritha.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 310
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4787
حدیث حاشیہ: اس کا قصہ تفسیروں میں پورا مذکور ہے۔ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کے ساتھ کہ اگر زید اپنی خوشی سے زینب کو طلاق دے اور زینب کی بھی خوشی ہو تو آپ ان کو اپنے حرم میں داخل کر لیں گے، ملکی رواج کے خلاف ہونے کی وجہ سے آپ اس بات کودل میں چھپاتے رہے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بالکل بجا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی کسی آیت کو چھپانا چاہتے تو اس آیت کو چھپا لیتے مگر جو نہی آپ پر نازل ہوئی آپ نے پورے طور پر امت پر پہنچا دیا (صلی اللہ علیه وسلم) ۔ بعد میں آپ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر کے عہد جاہلیت کی ایک غلط رسم کو توڑ دیا۔ عہد جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا تصور کرتے، اس کی عورت سے نکاح نا جائز تھا۔ آپ نے دونوں رسموں کو مٹا دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4787
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4787
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاندانی حیثیت بہت بلند تھی جبکہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بظاہر غلامی کا داغ اٹھا کر آزاد ہوئے تھے اس لیے مزاج کی موافقت نہ ہو سکی اور نہ معاشرتی تفاوت ہی ذہنوں سے اتنی جلدی دور ہو سکا اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ احترام نہ کر سکیں جو انھیں کرنا چاہیے تھا جب ان میں ناچاقی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے اور کہتے کہ میں اسے طلاق دے کر فارغ کرنا چاہتا ہوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہر بار یہی سمجھاتے کہ جب اس عورت نے اپنی خواہش قربان کر کے تم سے نکاح کر لیا ہے تو تمھیں بھی کچھ برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اب اسے طلاق دینے کو وہ اور اس کے عزیز واقارب اپنی ذلت خیال کریں گے تم اللہ سے ڈرو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگاڑکی صورت نہ پیدا کرو۔ لیکن جب بار بار شکایات کا سلسلہ شروع ہوا تو ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال آیا ہوکہ اگر زید نے حضرت زینب کو چھوڑ دیا تو زینب کی دلجوئی نکاح کرنے ہی سے ہو سکے گی۔ لیکن منافقین کی بد گوئی کا بھی اندیشہ تھا کہ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو اپنے حرم میں رکھ لیا ہے یہ تھی وہ بات جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دل میں چھپائے ہوئے تھے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں سے کوئی چیز چھپانے والے ہوتے تو یہ آیت ضرور چھپاتے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 440۔ (177) 2۔ اگرچہ دلوں کے خیالات پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے لحاظ سے دل میں ایسا خیال آنا بھی آپ کے شایان شان نہ تھا اس لیے ایسے خیال پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا کہ میں سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے نکاح میں دینے والا ہوں تاکہ جاہلیت کی رسم بد کا خاتمہ کیا جائے کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے چنانچہ جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلاق دے دی تو عدت گزر جانے کے ایجاب و قبول کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطور اعزاز کہا کرتی تھیں کہ دوسری بیویوں کی شادی تو ان کے سر پرستوں نے کی تھی لیکن میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7420) 3۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ جاؤ زینب سے میرا ذکر کرو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تعمیل حکم کے لیے جب میں ان کے پاس آیا تو وہ اپنے آٹے کا خمیر پکا رہی تھیں میں ان کی عظمت شان کی وجہ سے انھیں نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یاد کیا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا: زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے وہ آپ کو یاد کرتے ہیں انھوں نے جواب دیا میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ (استخارہ) نہ کر لوں پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوئیں۔ ادھر قرآن اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کےبغیر ان کے پاس چلے گئے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3502(1428) بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ متبنی (منہ بولا بیٹا) اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اس غلط رسم کو ختم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4787