(مرفوع) حدثنا معلى بن اسد، حدثنا عبد العزيز بن المختار، حدثنا موسى بن عقبة، قال: حدثني سالم، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما:" ان زيد بن حارثة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما كنا ندعوه إلا زيد بن محمد حتى نزل القرآن: ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوهُ إِلَّا زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کئے ہوئے غلام زید بن حارثہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله» کہ ”انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔“
Narrated `Abdullah bin `Umar: We used not to call Zaid bin Haritha the freed slave of Allah's Messenger except Zaid bin Muhammad till the Qu'anic Verse was revealed: "Call them (adopted sons) by (the names of) their fathers. That is more than just in the Sight of Allah." (33.5)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 305
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4782
حدیث حاشیہ: اسلام کے قانون میں لے پالک لڑکے لڑکی کا کوئی وزن نہیں ہے اس کو اولاد حقیقی جیسے حقوق نہیں ملیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4782
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4782
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے تھے اور آپ کو ان سے انتہائی محبت تھی، اسی طرح حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی آپ سے بہت تعلق خاطر تھا۔ ان کےبھائی حضرت جبلہ بن حارثہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بھائی زید کومیرے ساتھ بھیج دیں۔ آپ نے فرمایا: ”وہ حاضر ہے، اور اگر وہ تمہارے ساتھ (یمن) جانا چاہے تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ “ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا، چنانچہ حضرت جبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کی رائے کو اپنی رائے سے افضل اور وزنی پایا۔ (جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3815) 2۔ اللہ تعالیٰ نے دور جاہلیت کی رسم کو ختم کرنا چاہا تو اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا، چنانچہ آیت کے نزول کےبعد انھیں زید بن محمد کی بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ بہرحال اسلامی قانون میں لے پالک کی ایسی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اسے حقیقی اولاد جیسے حقوق ملیں۔ (واللہ اعلم)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4782
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6262
حضرت عبداللہ(بن عمر) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاکرتے تھے،ہم زید بن حارثہ کو زیدبن محمد ہی کے نام سے پکارا کرتے تھے،حتیٰ کہ قرآن مجید کی یہ آیت اُتری،"ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو،اللہ کے ہاں یہی قرین انصاف ہے۔"(احزاب آیت نمبر 5)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6262]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت زید رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ جاہلیت کے دور میں بنوقین کے لوگوں نے ان کو اٹھا کر عکاظ کے بازار میں بیچ ڈالا اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے خرید لیا اور انہوں نے شادی کے بعد، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا، آہستہ آہستہ، ان کے والد کو پتہ چل گیا، جو ان کے فراق کے غم میں روتے رہتے تھے، وہ اپنے بھائی کعب کو ساتھ لے کر، فدیہ کی رقم کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا، اپنے بچے سے پوچھ لو، اگر وہ تمہارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو تو مجھے کوئی انکار نہیں ہے، لیکن اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہیے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اسے نظر انداز کر دوں، حضرت زید نے آپ کے پاس اپنے کو ترجیح دی تو آپ نے جاہلیت کے دستور کے مطابق، اعلان کر دیا، آج سے زید میرا بیٹا ہے، میں اس کا وارث ہوں اور وہ میرا وارث ہو گا، اس سے حضرت زید کے باپ اور چچا خوش اور مطمئن ہو کر چلے گئے اور اس کے بعد سے حضرت زید، زید بن محمد کہلانے لگے، حتیٰ کہ قرآن مجید نے اس رسم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا، تفصیل کے لیے دیکھئے (طبقات ابن سعد ج 3 ص 40 تا 43 اور اصابہ ج 1 ص 245 تا 246) ۔