18. باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
(18) Chapter. “Not equal are those of the believers who sit (at home)...” (V.4:95)
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال: حدثني سهل بن سعد الساعدي: انه راى مروان بن الحكم في المسجد، فاقبلت حتى جلست إلى جنبه، فاخبرنا ان زيد بن ثابت اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم املى عليه لا يستوي القاعدون من المؤمنين سورة النساء آية 95 والمجاهدون في سبيل الله سورة النساء آية 95، فجاءه ابن ام مكتوم وهو يملها علي، قال: يا رسول الله، والله لو استطيع الجهاد لجاهدت، وكان اعمى، فانزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم، وفخذه على فخذي فثقلت علي، حتى خفت ان ترض فخذي، ثم سري عنه فانزل الله: غير اولي الضرر سورة النساء آية 95".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَّهُ رَأَى مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ فِي الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَى عَلَيْهِ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95 وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سورة النساء آية 95، فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهْوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ، وَكَانَ أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ عَلَيَّ، حَتَّى خِفْتُ أَنْ تَرُضَّ فَخِذِي، ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا انہوں نے مروان بن حکم بن عاص کو مسجد میں دیکھا (بیان کیا کہ) پھر میں ان کے پاس آیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گیا، انہوں نے مجھے خبر دی اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ آیت لکھوائی «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله»”مسلمانوں میں سے (گھر) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔“ ابھی آپ یہ آیت لکھوا ہی رہے تھے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اگر میں جہاد میں شرکت کر سکتا تو یقیناً جہاد کرتا۔ وہ اندھے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول پر وحی اتاری۔ آپ کی ران میری ران پر تھی (شدت وحی کی وجہ سے) اس کا مجھ پر اتنا بوجھ پڑا کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہو گیا۔ آخر یہ کیفیت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر» کے الفاظ اور نازل کئے۔
Narrated Zaid bin Thabit: That the Prophet dictated to him: "Not equal are those of the believers who sit (at home) and those who strive and fight in the Cause of Allah." Zaid added: Ibn Um Maktum came while the Prophet was dictating to me and said, "O Allah's Apostle! By Allah, if I had the power to fight (in Allah's Cause), I would," and he was a blind man. So Allah revealed to his Apostle while his thigh was on my thigh, and his thigh became so heavy that I was afraid it might fracture my thigh. Then that state of the Prophet passed and Allah revealed:-- "Except those who are disabled (by injury or are blind or lame etc).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 116
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4592
حدیث حاشیہ: یعنی جو لوگ معذور ہیں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ ان لفظوں کے اترنے سے عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ کو اور دوسرے معذور لوگوں کو تسلی ہو گئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے۔ البتہ جو لوگ قدرت رکھ کر جہاد نہ کریں وہ مجاہدین کا درجہ نہیں پا سکتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4592
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4592
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلے آیت میں یہ ذکر تھا کہ جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہوسکتے، اس میں معذور لوگوں کی وضاحت نہ تھی، پھر جب معذور لوگوں نے عذر پیش کیا تو مزید الفاظ نازل ہوئے جن سے معذور لوگوں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مدینے میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔ "صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: باوجود اس کے کہ وہ مدینے میں ہیں؟آپ نے فرمایا: "ہاں،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عذر نےروک لیا ہے۔ " گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کے عذر کو قبول فرمالیا لیکن اس رخصت کے باوجودآپ کا جذبہ جہاد اتنا تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ 2۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ آیت لکھوا رہے تھے جبکہ آخری حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ابن مکتوم ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا تو اس وقت آپ سامنے آگئے اور اپنا عذر پیش کیا کہ میں تو نابیناہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4423۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4592