(موقوف) حدثني علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ولا تقولوا لمن القى إليكم السلام لست مؤمنا سورة النساء آية 94، قال: قال ابن عباس:" كان رجل في غنيمة له فلحقه المسلمون، فقال: السلام عليكم، فقتلوه، واخذوا غنيمته، فانزل الله في ذلك إلى قوله: تبتغون عرض الحياة الدنيا سورة النساء آية 94 تلك الغنيمة، قال: قرا ابن عباس السلام".(موقوف) حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا سورة النساء آية 94، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" كَانَ رَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ فَلَحِقَهُ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَتَلُوهُ، وَأَخَذُوا غُنَيْمَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ إِلَى قَوْلِهِ: تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة النساء آية 94 تِلْكَ الْغُنَيْمَةُ، قَالَ: قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلَامَ".
مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا»”اور جو تمہیں سلام کرتا ہو اسے یہ مت کہہ دیا کرو کہ تو تو مومن ہی نہیں ہے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ ایک صاحب (مرداس نامی) اپنی بکریاں چرا رہے تھے، ایک مہم پر جاتے ہوئے کچھ مسلمان انہیں ملے تو انہوں نے کہا ”السلام علیکم“ لیکن مسلمانوں نے بہانہ خور جان کر انہیں قتل کر دیا اور ان کی بکریوں پر قبضہ کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تھی آخر آیت «عرض الحياة الدنيا» اس سے اشارہ انہیں بکریوں کی طرف تھا۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «السلام» قرآت کی ہے، مشہور قرآت بھی یہی ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: Regarding the Verse: "And say not to anyone who offers you peace (by accepting Islam), You are not a believer." There was a man amidst his sheep. The Muslims pursued him, and he said (to them) "Peace be on you." But they killed him and took over his sheep. Thereupon Allah revealed in that concern, the above Verse up to:-- "...seeking the perishable good of this life." (4.94) i.e. those sheep.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 115
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4591
حدیث حاشیہ: روایت میں مذکور سفیان ثوری حدیث کے بہت بڑے عالم اور زاہد وعابد وثقہ تھے۔ ائمہ حدیث اور مرجع العلوم تھے، ا ن کا شمار بھی ائمہ مجتہدین میں ہے۔ قطب اسلام ان کو کہا گیا ہے۔ 99ھ میں پیدا ہوئے اور 161ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4591
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4591
حدیث حاشیہ: 1۔ چونکہ ایک آدمی کے متعلق ایسا گمان شرعی نقطہ نگاہ سے غلط ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے واقعے کے متعلق پوری چھان بین کا حکم دیا۔ تحقیق کے بغیر اگر چھوڑدینے میں یہ امکان ہے کہ ایک کافر جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا ہے تو قتل کرنے میں اس امر کا بھی امکان ہے کہ ایک بے گناہ مومن تمہارے ہاتھوں مارا جائے اور تمہارا ایک کافر کو چھوڑ دینے میں غلطی کرنا اس سے بدرجہ بہتر ہے کہ تم ایک مومن کو قتل کرنے میں غلطی کرو۔ مقصد یہ ہے کہ جہاد میں پوری وضاحت کے بعد معاملہ کرنا چاہیے کیونکہ شریعت کے احکام ظاہر کے مطابق جاری ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کےسپرد ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اسی قسم کی بے احتیاطی پر حضرت اسامہ ؓ کو ڈانٹا تھا۔ (صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6872) 2۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ حکم ہر جگہ نہیں ہے۔ دارالحرب میں اگر کوئی کافر السلام علیکم کہے اور اس کی آڑ میں اپنا مطلب نکالنا چاہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اگرچہ مذکورہ واقعہ سفر میں پیش آیا تھا لیکن حضر میں بھی پوری چھان بین کرنے کا حکم ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4591