حدیث حاشیہ: 1۔
مطلب یہ ہے کہ اگر تقسیم ترکہ کے وقت کچھ محتاج یتیم اور فقیر قسم کے لوگ آجائیں یا دور کے رشتے دار وہاں موجود ہوں تو ازراہ احسان انھیں بھی کچھ نہ کچھ دیا جائے تنگ دلی یا تنگ ظرفی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔
اگر ایسا نہ کر سکو تو کم ازکم نرم لب و لہجے سے انھیں جواب دو ان سے سختی کے ساتھ بات نہ کرو۔
2۔
بعض اہل علم کا موقف ہے کہ یہ آیت قانون وراثت پر مشتمل آیت سے منسوخ ہو چکی ہے کیونکہ آیت میراث میں سب حقدار ورثاء کے حصے متعین ہو چکے ہیں لیکن درج ذیل دو صورتوں میں اس آیت کو منسوخ ماننے کی ضرورت پیش نہیں آئےگی
آیت میں مذکورہ رشتے داروں سے مراد عصبہ ہیں چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے آپ نے فرمایا:
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہے بلکہ لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔
آیت میں مذکورہ رشتے داروں کی دو قسمیں ہیں۔
ایک وہ
(عصبہ) جو وارث بن سکتا ہے اسے تو کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے اور دوسرا وہ
(عصبہ) جو وارث نہیں بنتا اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور کہا جائے کہ ہمارے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 275 9 وفتح الباري: 305/8)
یہ حکم مورث کے لیے ہے کہ جب وہ وفات سے پہلے وصیت کرے تو عصبہ رشتے داروں یتیموں اور مساکین کا بھی حصہ رکھے چنانچہ عبد اللہ بن عبدالرحمٰن بن ابو بکر نے حضرت عائشہ ؓ کی زندگی میں جب اپنے باپ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ کی وراثت تقسیم کی تو گھر میں موجود ہر رشتے دار اور مساکین کو اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ دیا اور مذکورہ آیت تلاوت فرمائی، حضرت قاسم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس واقعے کا تذکرہ کیا تو انھوں نے فرمایا:
عبد اللہ بن عبد الرحمٰن نے درست کام نہیں کیا کیونکہ یہ کام اس کے کرنے کا نہیں بلکہ یہ تو وصیت کرنے والے کی ذمے داری تھی۔
(السنن الکبری للبیهقي: 267/5۔
وفتح الباري: 306/8) 3۔
واضح رہے کہ ترکے میں سے دور کے رشتے داروں، یتیموں اور مساکین کو تھوڑا بہت دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے کیونکہ اگر یہ حکم وجوب کے لیے ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بھی ترکہ کے حق دار اور میراث میں شریک ہیں جبکہ ان کا حصہ متعین نہیں ہے۔
یہ چیز اختلاف انتشار اور جھگڑا کا باعث بن سکتی ہے۔