2. باب: آیت کی تفسیر ”اور جو شخص نادار ہو وہ مناسب مقدار میں کھا لے اور جب امانت ان یتیم بچوں کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو“ آخر آیت تک۔
(2) Chapter. “...But I fhe (the guardian) is poor, let him have for himself what is just and reasonable (acording to his work). And when you release their property to them, take witness in their presence; and Allah is All-Sufficient in taking account.” (V.4:6)
(موقوف) حدثني إسحاق، اخبرنا عبد الله بن نمير، حدثنا هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، في قوله تعالى:" ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فلياكل بالمعروف سورة النساء آية 6، انها نزلت في والي اليتيم إذا كان فقيرا، انه ياكل منه مكان قيامه عليه بمعروف".(موقوف) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:" وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ إِذَا كَانَ فَقِيرًا، أَنَّهُ يَأْكُلُ مِنْهُ مَكَانَ قِيَامِهِ عَلَيْهِ بِمَعْرُوفٍ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف»”بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے۔“ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر (یتیم کے مال میں سے کچھ) کھا سکتا ہے (بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو)۔
Narrated Aisha: regarding the Statement of Allah: "And whoever amongst the guardian is rich, he should take no wages, but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable (according to his work). This Verse was revealed regarding the orphan's property. If the guardian is poor, he can take from the property of the orphan, what is just and reasonable according to his work and the time he spends on managing it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 99
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4575
حدیث حاشیہ: 1۔ اس روایت میں ہے کہ یہ آیت کریمہ یتیم کے سر پرست کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یتیم کی دیکھ بھال اور اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے کہ اگر وہ نادار ہے تو دستور کے مطابق بطور حق الخدمت اس کے مال سے کھا سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2212) 2۔ حضرت عائشہ ؒ کی بیان کردہ اس تفسیر کی تائید میں ایک مرفوع روایت بھی ہے چنانچہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ایک یتیم میری کفالت میں ہے اور اس کے پاس مال بھی ہے جبکہ میرے پاس کچھ نہیں۔ کیا میں اس کے مال سے کچھ کھا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں دستور کے مطابق تو کھا سکتا ہے۔ " (تفسیر ابن أبي حاتم، سورہ النساء، آیت: 6۔ رقم: 2824) ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: "تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے لیکن اسراف اور فضول خرچی نہ ہو نہ جلدی کرنے والا اور نہ تو اس کے مال سے کوئی جمع پونجی بنانے والا ہی ہو۔ '' (سنن أبي داود، الوصایا، حدیث: 2872) 3۔ وہ دستور کیا ہے جس کے مطابق ایک نادار شخص اپنے زیر کفالت یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں وہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے لے، لے یعنی بہت کم خرچ کرے۔ (تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن: 586/7۔ رقم: 8621) ایک روایت میں ہے۔ وہ یتیم کے مال سے صرف اس قدر کھائے جس سے اس کی بھوک دور ہو جائے۔ اور اس قدر پہنے جس سے اس کی ستر پوشی ہو جائے۔ (تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن: 587/7۔ رقم: 8630۔ وفتح الباري: 304/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4575