قال ابن عباس: يستنكف: يستكبر قواما قوامكم من معايشكم، لهن سبيلا: يعني الرجم للثيب، والجلد للبكر"، وقال غيره: مثنى وثلاث: يعني اثنتين، وثلاثا، واربعا، ولا تجاوز العرب رباع.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَسْتَنْكِفُ: يَسْتَكْبِرُ قِوَامًا قِوَامُكُمْ مِنْ مَعَايِشِكُمْ، لَهُنَّ سَبِيلًا: يَعْنِي الرَّجْمَ لِلثَّيِّبِ، وَالْجَلْدَ لِلْبِكْرِ"، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَثْنَى وَثُلَاثَ: يَعْنِي اثْنَتَيْنِ، وَثَلَاثًا، وَأَرْبَعًا، وَلَا تُجَاوِزُ الْعَرَبُ رُبَاعَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (قرآن مجید کی آیت) «يستنكف»، «يستكبر» کے معنی میں ہے۔ «قواما»( «قياما») یعنی جس پر تمہارے گزران کی بنیاد قائم ہے۔ «لهن سبيلا» یعنی شادی شدہ کے لیے رجم اور کنوارے کے لیے کوڑے کی سزا ہے (جب وہ زنا کریں) اور دوسرے لوگوں نے کہا (آیت میں) «مثنى وثلاث ورباع» سے مراد دو دو تین تین اور چار چار ہیں۔ اہل عرب «رباع» سے آگے اس وزن سے تجاوز نہیں کرتے۔
(موقوف) حدثنا إبراهيم بن موسى، اخبرنا هشام، عن ابن جريج، قال: اخبرني هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها:"ان رجلا كانت له يتيمة فنكحها، وكان لها عذق، وكان يمسكها عليه ولم يكن لها من نفسه شيء، فنزلت فيه: وإن خفتم الا تقسطوا في اليتامى سورة النساء آية 3، احسبه قال: كانت شريكته في ذلك العذق وفي ماله".(موقوف) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:"أَنَّ رَجُلًا كَانَتْ لَهُ يَتِيمَةٌ فَنَكَحَهَا، وَكَانَ لَهَا عَذْقٌ، وَكَانَ يُمْسِكُهَا عَلَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا مِنْ نَفْسِهِ شَيْءٌ، فَنَزَلَتْ فِيهِ: وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى سورة النساء آية 3، أَحْسِبُهُ قَالَ: كَانَتْ شَرِيكَتَهُ فِي ذَلِكَ الْعَذْقِ وَفِي مَالِهِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے کہا، کہا مجھ کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی، پھر اس نے اس سے نکاح کر لیا، اس یتیم لڑکی کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا۔ اسی باغ کی وجہ سے یہ شخص اس کی پرورش کرتا رہا حالانکہ دل میں اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت اتری «وإن خفتم أن لا تقسطوا في اليتامى» کہ ”اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے۔“ ہشام بن یوسف نے کہا میں سمجھتا ہوں، ابن جریج نے یوں کہا یہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔
Narrated Aisha: There was an orphan (girl) under the care of a man. He married her and she owned a date palm (garden). He married her just because of that and not because he loved her. So the Divine Verse came regarding his case: "If you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan girls..." (4.3) The sub-narrator added: I think he (i.e. another sub-narrator) said, "That orphan girl was his partner in that datepalm (garden) and in his property."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 97
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4573
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ بالا آیت دو قسم کے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
ایک تو وہ جن کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کی بد صورتی یا کسی اور وجہ سے اس کے نکاح میں کوئی رغبت تو نہ رکھتے ہوں لیکن اس وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کر لیں کہ لڑکی مال دار ہے یا وہ ان کے مال میں شریک ہے۔ وہ کسی اور سے اس کا نکاح کر کے تیسرے آدمی کو مال میں شریک نہ کرنا چاہتے ہوں۔
دوسرے وہ جن کی پرورش میں یتیم لڑکی ہوتی اور وہ اس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح میں رغبت بھی رکھتے ہوں لیکن نکاح کرتے وقت حق مہر میں بے انصافی کریں اور پورا حق مہر نہ ادا کریں ان دونوں قسم کے لوگوں کو اس آیت کریمہ مین اپنی زیر پرورش لڑکیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت بیان کی گئی ہے۔ 2۔ اس روایت کے آخر میں جو بات شک کے ساتھ بیان ہوئی ہے اسے امام بخاری ؒ نے دوسری روایت میں یقین کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ "یہ اس آدمی کی بابت ہے جو کسی یتیم لڑکی کا سر پرست ہوتا اور وہ لڑکی اس کے ساتھ اس کے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی حصہ دار ہوتی لیکن سر پرست اس سے نکاح میں کوئی رغبت نہ رکھتا حتی کہ یہ بھی پسند نہ کرتا کہ کسی اور کے ساتھ اس کا نکاح کردے اور اسے اپنے مال میں شریک کر لے چنانچہ وہ اس لڑکی کو یوں ہی لٹکائےرکھتا۔ اس آیت کریمہ میں اس طرح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ '' (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4600) بہرحال اس حدیث میں ایک ہی قسم کو بیان کیا گیا ہے جبکہ آئندہ حدیث میں اس کی تفصیل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4573