صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
41. بَابُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} إِلَى: {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} :
41. باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
(41) Chapter. “And those of you who die and leave wives behind them, they (the wives) shall wait (as regards their marriage) for four months and ten days. Then when they have fulfilled their term, there is no sin on you if they (the wives) dispose of themselves in a just and honourable manner (i.e., they can marry). And Allah is Well-Acquainted with what you do.” (V.2:234)
حدیث نمبر: Q4530
Save to word اعراب English
يعفون: يهبن.يَعْفُونَ: يَهَبْنَ.
‏‏‏‏ «يعفون» بمعنی «يهبن» یعنی ہبہ کر دیں، بخش دیں۔

حدیث نمبر: 4530
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني امية بن بسطام , حدثنا يزيد بن زريع , عن حبيب , عن ابن ابي مليكة , قال ابن الزبير: قلت لعثمان بن عفان: والذين يتوفون منكم ويذرون ازواجا سورة البقرة آية 234، قال:" قد نسختها الآية الاخرى، فلم تكتبها او تدعها , قال: يا ابن اخي، لا اغير شيئا منه من مكانه".(موقوف) حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ حَبِيبٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ:" قَدْ نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الْأُخْرَى، فَلِمَ تَكْتُبُهَا أَوْ تَدَعُهَا , قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ".
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے، ان سے حبیب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں (قرآن کا) کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Az-Zubair: I said to `Uthman bin `Affan (while he was collecting the Qur'an) regarding the Verse:-- "Those of you who die and leave wives ..." (2.240) "This Verse was abrogated by an other Verse. So why should you write it? (Or leave it in the Qur'an)?" `Uthman said. "O son of my brother! I will not shift anything of it from its place."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 53


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4530 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4530  
حدیث حاشیہ:
منسوخ ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ بعض آیات حکم اور تلاوت دونوں طرح منسوخ ہوگئی ہیں۔
ان کو قرآن شریف میں درج نہیں کیا گیا اور کچھ آیات ایسی ہیں کہ ان کا حکم باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے، بعض ایسی ہیں جن کا حکم منسوخ ہے اور تلاوت باقی ہے۔
حضرت عثمانؓ کی مراد ان ہی آیات سے تھی جن کو تلاوت کے لیے باقی رکھا گیا اور حکم کے لحاظ سے وہ منسوخ ہو چکی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4530   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4530  
حدیث حاشیہ:

عرب لوگ یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ ان کے فوت شدہ شخص کی بیوہ کسی اور سے نکاح کرے یا وہ اس کے گھر سے نکلے اس لیے آغاز اسلام میں ان کے لیے سال بھر گھر میں رہنے اور ان کا نان و نفقہ کی وصیت کرنے کا حکم دیا گیا اس کے بعد عورت کی مدت چار ماہ دس دن مقرر کی گئی۔

مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حضرت عثمان ؓ کو قرآن جمع کرتے وقت کہا تھا کہ آپ منسوخ آیت کو قرآن میں کیوں لکھتے ہیں؟ حضرت عثمان ؓ نےجواب دیا کہ قرآن کی کسی آیت کو اس کے مقام سے ہٹانا نہیں چاہتا اگرچہ وہ منسوخ ہی کیوں نہ ہو۔

منسوخ ہونے کے اعتبار سے آیات کی تین قسمیں ہیں۔
جن کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں ایسی آیات کو قرآن میں درج نہیں کیا گیا۔
جن کا حکم باقی ہے لیکن ان کی تلاوت منسوخ ہے انھیں بھی قرآن میں نہیں لکھا گیا۔
جن کا حکم منسوخ ہے لیکن ان کی تلاوت باقی ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے اسی قسم کی آیات کے متعلق حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے فرمایا تھا:
میں اپنی طرف سے کسی آیت کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔
ایسی آیات کے لکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاوت سے ثواب ملتا ہے حافظ ابن حجر ؒ نے اس آیت کے لکھنے کا ایک اور فائدہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہی نہیں ہوتی تو ان کے موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ آیت کسی صورت میں محو نہیں ہو سکتی۔
(فتح الباري: 244/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4530   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.