Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
41. بَابُ: {وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا} إِلَى: {بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک روکے رکھیں“ آخر آیت «بما تعملون خبير» تک۔
حدیث نمبر: 4530
حَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ حَبِيبٍ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234، قَالَ:" قَدْ نَسَخَتْهَا الْآيَةُ الْأُخْرَى، فَلِمَ تَكْتُبُهَا أَوْ تَدَعُهَا , قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ".
ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے، ان سے حبیب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا‏» یعنی اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اس آیت کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس لیے آپ اسے (مصحف میں) نہ لکھیں یا (یہ کہا کہ) نہ رہنے دیں۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیٹے! میں (قرآن کا) کوئی حرف اس کی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4530 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4530  
حدیث حاشیہ:
منسوخ ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ بعض آیات حکم اور تلاوت دونوں طرح منسوخ ہوگئی ہیں۔
ان کو قرآن شریف میں درج نہیں کیا گیا اور کچھ آیات ایسی ہیں کہ ان کا حکم باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے، بعض ایسی ہیں جن کا حکم منسوخ ہے اور تلاوت باقی ہے۔
حضرت عثمانؓ کی مراد ان ہی آیات سے تھی جن کو تلاوت کے لیے باقی رکھا گیا اور حکم کے لحاظ سے وہ منسوخ ہو چکی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4530   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4530  
حدیث حاشیہ:

عرب لوگ یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ ان کے فوت شدہ شخص کی بیوہ کسی اور سے نکاح کرے یا وہ اس کے گھر سے نکلے اس لیے آغاز اسلام میں ان کے لیے سال بھر گھر میں رہنے اور ان کا نان و نفقہ کی وصیت کرنے کا حکم دیا گیا اس کے بعد عورت کی مدت چار ماہ دس دن مقرر کی گئی۔

مذکورہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حضرت عثمان ؓ کو قرآن جمع کرتے وقت کہا تھا کہ آپ منسوخ آیت کو قرآن میں کیوں لکھتے ہیں؟ حضرت عثمان ؓ نےجواب دیا کہ قرآن کی کسی آیت کو اس کے مقام سے ہٹانا نہیں چاہتا اگرچہ وہ منسوخ ہی کیوں نہ ہو۔

منسوخ ہونے کے اعتبار سے آیات کی تین قسمیں ہیں۔
جن کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہیں ایسی آیات کو قرآن میں درج نہیں کیا گیا۔
جن کا حکم باقی ہے لیکن ان کی تلاوت منسوخ ہے انھیں بھی قرآن میں نہیں لکھا گیا۔
جن کا حکم منسوخ ہے لیکن ان کی تلاوت باقی ہے۔
حضرت عثمان ؓ نے اسی قسم کی آیات کے متعلق حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے فرمایا تھا:
میں اپنی طرف سے کسی آیت کو آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔
ایسی آیات کے لکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاوت سے ثواب ملتا ہے حافظ ابن حجر ؒ نے اس آیت کے لکھنے کا ایک اور فائدہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہی نہیں ہوتی تو ان کے موقف کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ آیت کسی صورت میں محو نہیں ہو سکتی۔
(فتح الباري: 244/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4530