�
فقہ الحدیث منکرین حدیث اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں
قولہ: حدیث سوم: «عن ابن عمر: فاتوا حرثكم أني شئتم قال يأتيها في» اس حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «”في“» کا مجرور چھوڑ دیا ہے اور وہ «”دبر“» ہے، اور یہ فلاں فلاں حدیث کے مخالف ہے۔
{أقول:} اے جناب! یہ حدیث نہیں ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر ہے اور
«”في“» کا مجرور
«”دبر“» نہیں ہے، بلکہ
«”فرج“» ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ الله فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ امام حمیدی نے اپنی کتاب
«”جمع بين الصحيحين“» میں اس اثر کو
«”يأتيها فى الفرج“» کے جملہ سے نقل کیا ہے اور حافظ ممدوح فرماتے ہیں کہ میں نے صغانی کے نسخہ کو دیکھا، اس میں برقانی نے
«”في“» کا مجرور
«”فرج“» زیادہ کیا ہے۔
۱؎ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اس حدیث میں
«”في“» کا مجرور
«”فرج“» ماننے کے کئی قرینے ہیں:
اول: یہ کہ اثر ابن عمر جس روایت میں
«”في الدبر“» کی تصریح ہے، نافع نے اس روایت سے انکار کیا ہے۔
۲؎ دوم: یہ کہ سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ ابن عمر کے اس قول کا مطلب یہ نقل کیا ہے:
«لا بأس أن يوتي فى فروجهن من أدبارهن» ۳؎ [جواھر منیفہ: 100/2] سوم: یہ کہ سيدنا ابن عمر نے خود اس فعل سے بایں الفاظ انکار کیا ہے:
«وهل يفعل ذلك أحد من المسلمين» ۴؎ (جواھر) یعنی کیا اس کو کوئی مسلمان کر سکتا ہے؟
چہارم: یہ کہ
«”في“» کا مجرور
«”دبر“» ماننے سے آیت
” «حرث لكم» “ کے مفاد کے خلاف ہو گا۔
پنجم: یہ کہ بقول آپ کے بہت سی احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔
۵؎ یہ سب قرائن صاف بتلاتے ہیں کہ حدیث بخاری میں
«”في“» کا مجرور
«”فرج“» ہے نہ
«”دبر“» ۔
باقی رہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے
«”في“» کا مجرور
«”فرج“» ذکر کیوں نہیں کر دیا؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ چونکہ
«”في“» کا مجرور محض
«”فرج“» ہی نہیں بلکہ
«في فروجهن من أدبارهن» بھی ہے، اس لیے اس کے ذکر میں استکراہ سمجھا اور یہ غایت تہذیب و دانائی ہے۔
۶؎ ------------------
۱؎ لیکن بعد میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے
«”في“» کا مجرور
«”فرج“» نکالنے کی تردید کی ہے اور حمیدی کا
«”فرج“» کو مجرور ذکر کرنا ان کا اپنا فہم اور صریح روایت کے مخالف قرار دیا ہے۔
[فتح الباری:189/8] ۲؎ دیکھیں:
[السنن الکبریٰ للنسائی:315/5، شرح معاني الآثار:42/3] ۳؎ [تفسير البغوي:259/1 شرح معاني الآثار:42/3] ۴؎ [سنن الدارمي:277/1، شرح معاني الآثار:41/3، غريب الحديث للخطابي:400/2] ۵؎ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
«تحريم إتيان فى الدبر» کے بارے میں وارد احادیث کے متعلق لکھتے ہیں:
«قلت لكن طرقها كثيرة فمجموعها صالح للاحتجاج به، ويؤيد القول بالتحريم أنا لو قدمنا أحاديث الإباحة، للزم أنه أبيح بعد أن حرم، والأصل عدمه، فمن الأحاديث الصالحة الإسناد حديث خزيمة بن ثابت أخرجه أحمد والنسائي وبن ماجة وصححه بن حبان وحديث أبى هريرة أخرجه أحمد والترمذي وصححه بن حبان أيضا وحديث بن عباس وقد تقدمت الإشارة إليه وأخرجه الترمذي من وجه آخر بلفظ لا ينظر الله إلى رجل آتي رجلا أو امرأة فى الدبر وصححه ابن حبان أيضا وإذا كان ذلك صلح أن يخصص عموم الآية.» [فتح الباري:191/8، التلخيص الحبير:179/3، إرواء الغليل:68/7، برقم:2006] ۶؎ نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مجرور کے عدم ذکر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وهذا الذى استعمله البخاري، نوع من أنواع البديع يسمى الاكتفاء، ولا بدله من نكتة يحسن سببها استعماله» [فتح الباري:190/8]