صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
69. بَابٌ:
69. باب:۔۔۔
(69) Chapter.
حدیث نمبر: 4367
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إبراهيم بن موسى، حدثنا هشام بن يوسف، ان ابن جريج اخبرهم، عن ابن ابي مليكة، ان عبد الله بن الزبير اخبرهم: انه قدم ركب من بني تميم على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر:" امر القعقاع بن معبد بن زرارة"، قال عمر:" بل امر الاقرع بن حابس"، قال ابو بكر:" ما اردت إلا خلافي"، قال عمر:" ما اردت خلافك"، فتماريا حتى ارتفعت اصواتهما، فنزل في ذلك: يايها الذين آمنوا لا تقدموا سورة الحجرات آية 1 حتى انقضت.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُم: أَنَّهُ قَدِمَ رَكْبٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" أَمِّرْ الْقَعْقَاعَ بْنَ مَعْبَدِ بْنِ زُرَارَةَ"، قَالَ عُمَرُ:" بَلْ أَمِّرْ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي"، قَالَ عُمَرُ:" مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ"، فَتَمَارَيَا حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُقَدِّمُوا سورة الحجرات آية 1 حَتَّى انْقَضَتْ.
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ابن ابی ملیکہ نے اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ آپ ہمارا کوئی امیر منتخب کر دیجئیے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو امیر منتخب کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بلکہ آپ اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر منتخب فرما دیجئیے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں میری غرض مخالفت کی نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کی آواز بلند ہو گئی۔ اسی پر سورۃ الحجرات کی یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا‏» آخر آیت تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: `Abdullah bin Az-Zubair said that a group of riders belonging to Banu Tamim came to the Prophet, Abu Bakr said (to the Prophet ), "Appoint Al-Qa'qa bin Mabad bin Zurara as (their) ruler." `Umar said (to the Prophet). "No! But appoint Al-Aqra bin H`Abis." Thereupon Abu Bakr said (to `Umar). "You just wanted to oppose me." `Umar replied. "I did not want to oppose you." So both of them argued so much that their voices became louder, and then the following Divine Verses were revealed in that connection:-- "O you who believe ! Do not be forward in the presence of Allah and His Apostle..." (till the end of Verse)...(49.1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 653


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4367عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزل في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا حتى انقضت
   صحيح البخاري4847عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزل في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله حتى انقضت الآية
   سنن النسائى الصغرى5388عبد الله بن الزبيرتماريا حتى ارتفعت أصواتهما فنزلت في ذلك يأيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدي الله ورسوله حتى انقضت الآية ولو أنهم صبروا حتى

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4367 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4367  
حدیث حاشیہ:
ایک خطر ناک غلطی:
حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر کے جواب میں کہا ما أردت خلافك میرا ارادہ آپ کی مخالفت کر نا نہیں ہے صرف بطور مشورہ و مصلحت یہ میں نے عرض کیا ہے۔
اس کا ترجمہ، صاحب تفہیم البخاری نے یوں کیا ہے عمر ؓ نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا مقصدصرف تمہاری رائے سے اختلاف کر نا ہی ہے۔
یہ ایسا خطر ناک ترجمہ ہے کہ حضرات شیخین کی شان اقدس میں اس سے بڑا دھبہ لگتا ہے جبکہ حضرات شیخین میں باہمی طور پر بہت ہی خلوص تھا۔
اگر کبھی کوئی موقع باہمی اختلافات کا آبھی گیاتو وہ اس کو فورا رفع دفع کر ليا کرتے تھے۔
خاص طور پر حضرت عمر ؓ حضرت صدیق اکبر ؓ کا بہت زیا دہ احترام کر تے تھے اور حضرت صدیق اکبر کا بھی یہی حال تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4367   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4367  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں وفد بنوتمیم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس غرض سے آئے تھے۔
اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔

آخر میں انھوں نے عرض کی کہ آپ ہم میں سے کسی کو امیر بنادیں۔
رسول اللہ ﷺ ابھی خاموش تھے کہ شیخین نے اپنی آراء کا اظہار شروع کردیا۔
حضرت ابوبکر ؓ نے قعقاع کا نام اس لیے پیش کیا کہ وہ ذرا نرم مزاج تھا۔
اس کے مقابلے میں حضرت عمر ؓ نے اقرع بن حابس کا نام پیش کیا کیونکہ نظام امارت چلانے میں یہ زیادہ ماہر تھے۔
دونوں حضرات نے بہتر ارادہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ حضرات اپنی آراء کا اظہار کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی۔
اس کا نتیجہ یہ ہواکہ آئندہ جب عمر ؓ نبی اکرم ﷺ سے بات کرتے تو اس انداز سے جیسا کہ رازداری کی جاتی ہے۔
باربار انھیں کہا جاتا کہ تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی، دوبارہ کہو، چنانچہ اس کی وضاحت حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک دوسری روایت میں کی ہے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7302)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4367   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5388  
´شعراء کو ذمہ داری دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو (یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5388]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بڑے بڑے عظماء اور جلیل القدر لوگوں سے بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسا کہ امت محمدیہ کے افضل ترین انسان صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما سے خطا صادر ہوئی، تاہم انہوں نے ایسی سچی توبہ کی کہ مذکورہ واقعے کے بعد کبھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی۔
(2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی عظیم قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آپ کے سامنے کسی کو اونچی آواز سے بات کرنے کا حق بھی نہیں چہ جائیکہ آپ کے مقابلے میں کسی امتی کو درجۂ امامت پر فائز کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیا جائے اور ساری زندگی نہ صرف اس کی اندھا دھند تقلید میں گزار دی جائے بلکہ بلا دلیل اس کی بات تسلیم نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔
(3) اس حدیث میں مسئلۃ الباب کا صراحتاً ذکر نہیں اگر کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ اقرع بن حابس بھی شاعری کرتے تھے تو پھر بات واضح ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) قرآن مجید اور احادیث میں عموما! شعراء کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ شعراء مبالغہ آرائی بلکہ جھوٹ، خوشامد اور تعلی کے عادی ہوتے ہیں اور شریعت ان اوصاف کو برا سمجھتی ہے۔ ویسے بھی حاکم کے لیے سنجیدہ طبع ہونا ضروری ہے اور یہ چیز پیشہ ور شعراء میں مفقود ہوتی ہے، اس لیے ظاہری طورپر سمجھ میں یہی آتا ہے کہ شعراء کو حاکم نہیں نبانا چاہیے مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر ایسا ہی ہو خصوصاً جو پیشہ ور شاعر نہ ہو، لہٰذا اگر امارت کا اہل ہو تو اسے امیر بنایا جا سکتا ہے۔
(5) آگے نہ بڑھو یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے قبل جلد بازی نہ کرو بلکہ ان کے فیصلے کا انتظار کرو جب تک رسول اللہ ﷺ خود مشورہ طلب نہ فرمائیں، تم خود بخود مشورہ نہ دو۔ امیر منتخب کرنا رسول اللہ ﷺ کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔
(6) صبر کرتے اشارہ بنو تمیم کے وفد کی طرف ہے کہ جب وہ آئے تھے تو انہوں نے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی تھیں: يَا مُحمّد! اُخْرُجْ ظاہر ہے یہ معقول انداز نہیں تھا۔ نبیٔ اکرم ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو اس طرح نہیں بلایا جا سکتا بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5388   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4847  
4847. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کا ایک قافلہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ، قیقاع بن معبد کو ان کا امید مقرر کر دیں، جبکہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا سردار بنا دیں۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اے عمر! تم نے تو میری مخالفت کا ارادہ کر رکھا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا۔ بہرحال دونوں حضرات جھگڑ پڑے حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُقَدِّمُوا۟ بَيْنَ يَدَىِ ٱللَّـهِ وَرَسُولِهِۦ۔۔۔﴾ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4847]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ ادب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا ہے اور اس کے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں یا وہ لوگ جو آپ کے زمانے میں موجود تھے۔
اور یہ ادب اس لیے سکھایا گیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایک عام اور معمولی آدمی خیال نہ کریں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
وہ اللہ کے رسول اور اس کے مستند نمائندے ہیں جن کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے، تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں آپ کے ارشادات، معمولات اور آپ کا اخلاق و کردار بیان ہو رہا ہو، یا آپ کی احادیث پڑھی، پڑھائی جا رہی ہوں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4847   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.