7480. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: نبی ﷺ نے اہل طائف کا محاصرہ کیا لیکن ابھی فتح نہیں کیا تھا کہ آپ نے فرمایا: ”ہم ان شاء اللہ کل (مدینہ طیبہ) واپس چلے جائیں گے۔ مسلمانوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم فتح کیے بغیر ہی لوٹ جائیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تمہارا یہی عزم ہے تو پھر کل صبح لڑائی شروع کرو۔“ صبح انہوں نے جنگ کی تو بہت زخمی ہوگئے۔ (یہ دیکھ کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم ان شاء اللہ کل واپس جائیں گے۔“ اس پر مسلمان بہت خوش ہوئے تب (یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7480]
حدیث حاشیہ: 1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا۔
چونکہ وہ بڑے نشانہ باز اور تیر انداز تھے، اس لیے اس قلعے کو فتح کرنا مشکل تھا۔
وہاں لمبا عرصہ ٹھہرنے کی ضرورت تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر شفقت فرماتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم کل مدینہ طیبہ لوٹ جائیں گے لیکن مسلمانوں کو یہ پروگرام پسند نہ آیا اور انھوں نے اسے فتح کرنے کا عزم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تمہارا اسے فتح کرنے کا پروگرام ہے تو صبح جنگ کا آغاز کردو۔
“ چنانچہ جنگ شروع کر دی گئی۔
مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا اور انھیں کاری زخم لگے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی تو پھر فرمایا:
”ان شاء اللہ ہم کل واپس لوٹ جائیں گے۔
“ اس عزم پر مسلمان بہت خوش ہوئے تب انھیں پتا چلا کہ خیروبرکت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنے میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے عزم کی تبدیلی پر مسکرا دیے کہ ابھی کل کی بات ہے کہ لڑنے پر آمادہ تھے اور آج واپسی کے لیے خوش ہیں۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو بیان کیا ہے کہ پہلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا عزم کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا اور اسکے اسباب مہیا نہ فرمائے۔
اگلے دن پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ لوٹ جانے کا عزم کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا، اب یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اسباب اور ذرائع مہیا کر دیے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی کو محتاج نہیں، وہ تمام جہان میں کارفرما ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کر گزرتا ہے وہ بے نیاز اور بے پروا ہے، اس سلسلے میں کسی کا محتاج نہیں۔
بہرحال ہم اس بات کے پابند ہیں کہ اپنے آئندہ کے پروگرام اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وابستہ کریں۔
اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کامیابی یا ناکامی اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے جو رب العالمین ہے۔
“ (التکویر 29) 3۔
مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کی دو قسمیں ہیں:
۔
ارادہ کونیہ۔
۔
ارادہ شرعیہ۔
ارادہ کونیہ جو مشیت کے معنی میں ہوجیسا کہ قرآن میں ہے:
”اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہو کہ تمھیں گمراہ کر دے۔
“ (ھود 34) ارادہ شرعیہ جو محبت کے معنی میں ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ توچاہتا ہے کہ تم پر توجہ دے۔
“ (النساء 27/4) لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی چیز کو پسند فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ چیز وقوع پذیر بھی ہو جائے، البتہ جب ارادہ کونیہ فرماتا ہے، یعنی کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ چیز فوراً پیدا ہو جاتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بس اس کا حکم، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے یہ
(ہوتا ہے) کہ وہ اسے کہتا ہے کہ
”ہوجا
“ تو وہ ہوجاتی ہے۔
“ (یٰس 82) البتہ شرعی ارادے میں اس کا وقوع پذیر ہونا ضروری نہیں کیونکہ محبوب چیز کبھی وقوع پذیر ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم۔