55. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
(55) Chapter. The Statement of Allah: (“Truly, Allah has given you victory on many battlefields), and on the day of Hunain (battle) when you rejoiced at your great number… (up to)… Oft-Forgiving, Most Merciful.” (V.9:22-27)
(مرفوع) وقال الليث: حدثني يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، ان ابا قتادة، قال: لما كان يوم حنين نظرت إلى رجل من المسلمين يقاتل رجلا من المشركين وآخر من المشركين يختله من ورائه ليقتله، فاسرعت إلى الذي يختله، فرفع يده ليضربني واضرب يده فقطعتها، ثم اخذني فضمني ضما شديدا حتى تخوفت، ثم ترك فتحلل ودفعته، ثم قتلته، وانهزم المسلمون وانهزمت معهم، فإذا بعمر بن الخطاب في الناس، فقلت له: ما شان الناس؟ قال: امر الله، ثم تراجع الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اقام بينة على قتيل قتله فله سلبه"، فقمت لالتمس بينة على قتيلي، فلم ار احدا يشهد لي، فجلست، ثم بدا لي فذكرت امره لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل من جلسائه: سلاح هذا القتيل الذي يذكر عندي فارضه منه، فقال ابو بكر: كلا لا يعطه اصيبغ من قريش، ويدع اسدا من اسد الله يقاتل عن الله ورسوله صلى الله عليه وسلم، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاداه إلي، فاشتريت منه خرافا، فكان اول مال تاثلته في الإسلام.(مرفوع) وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمَ حُنَيْنٍ نَظَرْتُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُقَاتِلُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَآخَرُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَخْتِلُهُ مِنْ وَرَائِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَأَسْرَعْتُ إِلَى الَّذِي يَخْتِلُهُ، فَرَفَعَ يَدَهُ لِيَضْرِبَنِي وَأَضْرِبُ يَدَهُ فَقَطَعْتُهَا، ثُمَّ أَخَذَنِي فَضَمَّنِي ضَمًّا شَدِيدًا حَتَّى تَخَوَّفْتُ، ثُمَّ تَرَكَ فَتَحَلَّلَ وَدَفَعْتُهُ، ثُمَّ قَتَلْتُهُ، وَانْهَزَمَ الْمُسْلِمُونَ وَانْهَزَمْتُ مَعَهُمْ، فَإِذَا بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ لَهُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ تَرَاجَعَ النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَقَامَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ"، فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، فَجَلَسْتُ، ثُمَّ بَدَا لِي فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ.
اور لیث بن سعد نے بیان کیا، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔
Narrated Abu Qatada: When it was the day of (the battle of) Hunain, I saw a Muslim man fighting with one of the pagans and another pagan was hiding himself behind the Muslim in order to kill him. So I hurried towards the pagan who was hiding behind the Muslim to kill him, and he raised his hand to hit me but I hit his hand and cut it off. That man got hold of me and pressed me so hard that I was afraid (that I would die), then he knelt down and his grip became loose and I pushed him and killed him. The Muslims (excepting the Prophet and some of his companions) started fleeing and I too, fled with them. Suddenly I met `Umar bin Al-Khattab amongst the people and I asked him, "What is wrong with the people?" He said, "It is the order of Allah" Then the people returned to Allah's Apostle (after defeating the enemy). Allah's Apostle said, "Whoever produces a proof that he has killed an infidel, will have the spoils of the killed man." So I got up to look for an evidence to prove that I had killed an infidel, but I could not find anyone to bear witness for me, so I sat down. Then it came to my mind (that I should speak of it) and I mentioned the case to Allah's Apostle. A man from the persons who were sitting with him (i.e. the Prophet), said, "The arms of the deceased one whom he ( i.e. Abu Qatada) has mentioned, are with me, so please compensate him for it (i.e. the spoils)," Abu Bakr said, "No, Allah's Apostle will not give it (i.e. the spoils) to a weak humble person from Quraish and leave one of Allah's Lions who fights on behalf of Allah and His Apostle." Allah's Apostle then got up and gave that (spoils) to me, and I bought with it, a garden which was the first property I got after embracing Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 611
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4322
حدیث حاشیہ: غزوئہ حنین کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ہیں۔ غزوئہ بدر کے بعد دوسرا غزوہ جس کا تذکرہ اشارۃً نہیں بلکہ نام کی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے وہ غزوئہ حنین ہے۔ حنین ایک وادی کا نام ہے جو شہر طائف سے 30-40 میل شمال ومشرق میں جبل اوطاس میں واقع ہے۔ یہ عرب کا مشہور جنگجو و جنگ باز قبیلہ ہوازن کا مسکن تھا اور اس قبیلہ کی ملکئہ تیر اندازی کی شہرت دوردور تھی۔ انہوں نے فتح مکہ کی خبر پا کر دل میں کہا کہ جب قریش مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تو اب ہما ری بھی خیر نہیں اور خود ہی جنگ و قتال کا سامان شروع کر دیا اور چاہا کہ مسلمانوں پر جو ابھی مکہ ہی میں یکجا تھے، یک بیک آپڑیں اور اس منصوبہ میں ایک دوسرا پر قوت اور جنگجو قبیلہ بنی ثقیف بھی ان کا شریک ہو گیا اور ہوازن اور ثقیف کے اتحاد نے دشمن کی جنگی قوت کوبہت ہی بڑھا دیا۔ حضور ﷺ کو جب اس کی معتبر خبر مل گئی تو ایک اچھے جنرل کی طرح آپ خود ہی پیش قدمی کر کے باہر نکل آئے اور مقام حنین پر غنیم کے سامنے صف آرائی کر لی۔ آپ کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں دس ہزار تو وہی فدائی جو مدینہ سے ہم رکاب آئے تھے۔ دو ہزار آدمی مکہ کے بھی شامل ہوگئے مگر ان میں سب مسلمان نہ تھے کچھ تو ابھی بہ دستور مشرک ہی تھے اور کچھ نو مسلم کے بجائے، نیم مسلم تھے۔ بہر حال مجاہدین کی اس جمیعت کثیر پر مسلمانوں کو ناز ہو چلا کہ جب ہم تعداد قلیل میں رہ کر برابر فتح پاتے آئے تو اب کی تعداد اتنی بڑی ہے، اب فتح میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو اس کے بعض دور اسلامی لشکر پر بہت ہی سخت گذرے اور مسلمانوں کا اپنی کثرت تعداد پر فخر کرنا ذرا بھی ان کے کام نہ آیا۔ ایک موقع ایسا بھی پیش آیا کہ اسلامی فوج کو ایک تنگ نشیبی وادی میں اترنا پڑا اور دشمن نے اپنی کمین گاہ سے یک بیک ان پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ خیر پھر غیبی امداد کا نزول ہوااور آخری فتح مسلمانوں ہی کے حصے میں رہی۔ قرآن مجید نے اس سارے نشیب و فراز کی نقشہ کشی اپنے الفاظ میں کر دی ہے۔ ﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾(التوبة: 25) اللہ نے یقینا بہت سارے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوگیا تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہ سکے اور اللہ نے کافروں کو عذاب میں پکڑا۔ یہی بدلہ ہے کافروں کے لیے۔ غزوئہ حنین کا زمانہ شوال سنہ 8ھ مطابق جنوری سنہ663ء کا ہے۔ (قرآنی سیرت نبوی) حدیث ہذا -----کے ذیل علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ أبو عبد الله الحميدي الأندلسي: سمعت بعض أهل العلم يقول عند ذكر هذا الحديث: لو لم يكن من فضيلة الصديق -رضي الله عنه- إلا هذا فإنه يثاقب علمه وشدة صرامته وقوّة إنصافه وصحة توفيقه وصدق تحقيقه بادر إلى القول الحق فزجر وأفتى وحكم وأمضى، وأخبر في الشريعة عنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بحضرته وبين يديه بما صدّقه فيه وأجراه على قوله، وهذا من خصائصه الكبرى إلى ما لا يحصى من فضائله الأخرى.(قسطلانی) یعنی حافظ ابو عبداللہ حمیدی اندلسی نے کہا کہ میں نے اس حدیث کے ذکر میں بعض اہل علم سے سنا کہ اگر حضرت صدیق اکبر ؓ کے فضائل میں اور کوئی حدیث نہ ہوتی صرف یہی ہوتی تو بھی ان کے فضائل کے لیے یہی کافی تھی جس سے ان کا علم ان کی پختگی قوت انصاف اور عمدہ توفیق اور تحقیق حق وغیرہ اوصاف حمیدہ ظاہر ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کس قدر دلیری سے کام لیا اور فتوی دینے کے ساتھ غلط گوکوڈانٹا اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے دربارعالی میں آواز حق کو بلند کیا، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی اور ہو بہواسے جاری فرما دیا۔ یہ امور حضرت ابوبکر ؓ کے خصائص میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت صدیق اکبر ؓ کی روح پر بے شمار سلام اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4322
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4322
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں غزوہ حنین کے وقت مسلمانوں کی وقتی شکست کو انتشار و اضطراب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انتشاربھی بعض نئےاسلام قبول کرنے والوں میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی ساتھی اس سے محفوظ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کے منہ پر ماری اور فرمایا: "ان کے چہرے سیاہ ہوں۔ " تو معجزانہ طور پر تمام مشرکین اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ 2۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے قبیلہ ہوازن کے لوگوں کو شکست سے دوچار کیا اور وہ بھاگ نکلے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا: "جو کسی کافر کو قتل کرے وہ اس کا سامان لے لے۔ " اس روز حضرت ابو طلحہ ؓ نے بیس مشرکین کو قتل کیا اور ان کے سامان پر قبضہ کیا تھا۔ حضرت قتادہ ؓ کا واقعہ بھی اسی روز کا ہے، انھوں نے ایک مشرک کو قتل کیا تھا جس کے پاس بہت اسلحہ تھا اس پر ایک آدمی نے قبضہ جما لیا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے کہنے پر وہ سامان ابو قتادہ ؓ کے حوالے کیا گیا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے وہ سامان حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے ہاتھ سات اوقیےچاندی میں فروخت کیا، پھر اس سے باغ خریدا۔ (فتح الباري: 51/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4322