(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، قال: اخبرني حسن بن مسلم، عن مجاهد: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يوم الفتح، فقال:" إن الله حرم مكة يوم خلق السموات والارض، فهي حرام بحرام الله إلى يوم القيامة، لم تحل لاحد قبلي ولا تحل لاحد بعدي، ولم تحلل لي قط إلا ساعة من الدهر لا ينفر صيدها، ولا يعضد شوكها، ولا يختلى خلاها، ولا تحل لقطتها إلا لمنشد"، فقال العباس بن عبد المطلب: إلا الإذخر يا رسول الله، فإنه لا بد منه للقين والبيوت، فسكت، ثم قال:" إلا الإذخر، فإنه حلال"، وعن ابن جريج، اخبرني عبد الكريم، عن عكرمة، عن ابن عباس بمثل هذا او نحو هذا، رواه ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ بِحَرَامِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا تَحِلُّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، وَلَمْ تَحْلِلْ لِي قَطُّ إِلَّا سَاعَةً مِنَ الدَّهْرِ لَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَوْكُهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا تَحِلُّ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ"، فَقَالَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ لِلْقَيْنِ وَالْبُيُوتِ، فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالَ:" إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ حَلَالٌ"، وَعَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمِثْلِ هَذَا أَوْ نَحْوِ هَذَا، رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا مجھ کو حسن بن مسلم نے خبر دی اور انہیں مجاہد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور فرمایا ”جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا، اسی دن اس نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا۔ پس یہ شہر اللہ کے حکم کے مطابق قیامت تک کے لیے حرمت والا رہے گا۔ جو مجھ سے پہلے کبھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا اور میرے لیے بھی صرف ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا تھا۔ یہاں حدود حرم میں شکار کے قابل جانور نہ چھیڑے جائیں۔ یہاں کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں نہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے اور یہاں پر گری پڑی چیز اس شخص کے سوا جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور کسی کے لیے اٹھانی جائز نہیں۔“ اس پر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ نے کہا: یا رسول اللہ! اذخر (گھاس) کی اجازت دے دیجئیے کیونکہ سناروں کے لیے اور مکانات (کی تعمیر وغیرہ) کے لیے یہ ضروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے پھر فرمایا ”اذخر اس حکم سے الگ ہے اس کا (کاٹنا) حلال ہے۔“ دوسری روایت ابن جریج سے (اسی سند سے) ایسی ہی ہے انہوں نے عبدالکریم بن مالک سے، انہوں نے ابن عباس سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کی ہے۔
Narrated Mujahid: Allah's Apostle got up on the day of the Conquest of Mecca and said, "Allah has made Mecca a sanctuary since the day He created the Heavens and the Earth, and it will remain a sanctuary by virtue of the sanctity Allah has bestowed on it till the Day of Resurrection. It (i.e. fighting in it) was not made lawful to anyone before me!, nor will it be made lawful to anyone after me, and it was not made lawful for me except for a short period of time. Its game should not be chased, nor should its trees be cut, nor its vegetation or grass uprooted, not its Luqata (i.e. Most things) picked up except by one who makes a public announcement about it." Al-Abbas bin `Abdul Muttalib said, "Except the Idhkhir, O Allah's Apostle, as it is indispensable for blacksmiths and houses." On that, the Prophet kept quiet and then said, "Except the Idhkhir as it is lawful to cut."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 603
الله حرم مكة يوم خلق السموات والأرض فهي حرام بحرام الله إلى يوم القيامة لم تحل لأحد قبلي لا تحل لأحد بعدي لم تحلل لي قط إلا ساعة من الدهر لا ينفر صيدها لا يعضد شوكها لا يختلى خلاها لا تحل لقطتها إلا لمنشد إلا الإذخر
الله حبس عن مكة الفيل سلط عليها رسوله والمؤمنين إنما أحلت لي ساعة من النهار هي حرام إلى يوم القيامة لا يعضد شجرها لا ينفر صيدها لا تحل لقطتها إلا لمنشد
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4313
حدیث حاشیہ: مجاہد تابعی ہیں تو یہ حدیث مرسل ہوئی مگرا مام بخاری ؒ نے اس کو کتاب الحدود کتاب جہاد میں وصل کیا ہے۔ مجاہد سے، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے۔ صداقت محمدی اس سے ظاہر ہے کہ مکۃ المکرمہ آج بھی حرم ہے اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ آ ج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہوسکے گا۔ حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کابہت کچھ تحفظ کیا ہے۔ اللہ تعالی اس حکومت کو قائم ودائم رکھے۔ آمین۔ حضرت علامہ ابن قیم ؒ نے فتح مکہ کوفتح اعظم سے تعبیر کرتے ہوے لکھا ہے فصل في الفتح الأعظم الذي أعز اللہ به دینه ورسوله و جندہ وحرمه الأمین واستنقذ به بلدہ وبیته الذي جعله ھدی للعالمین من أیدي الکفار والمشرکین وھو الفتح الذي استبشربه أھل السماءوضربت أطناب عزة علی مناکب الجوزاء ودخل الناس به في دین اللہ أفواج وأشرق به وجه الأرض ضیاءوابتھاجا (زاد المعاد) یعنی اللہ تبارک و تعالی نے فتح مکہ سے اپنے دین کو اپنے رسول کو اپنی فوج کو اپنے امن والے شہر کو بہت بہت عزت فرمائی اور شہر مکہ اور خانہ کعبہ کوجو سارے جہانوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے اس کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے آزادی نصیب کی۔ یہ وہ فتح ہے جس کی خوشی آسمانی مخلوق نے منائی اور جس کی عزت کے جھنڈے جوزہ ستارے پر لہرائے اور لوگ جوق در جوق جس کی وجہ سے اللہ کے دین میں داخل ہوگئے جس کی برکت سے ساری زمین منور ہوکر روشنی اور مسرت سے بھر پور ہو گئی۔ غزوئہ فتح مکہ کا ذکر مزید تفصیل کے ساتھ یوں ہے۔ غزوات نبوی کے سلسے میں فتح مکہ کا کارنامہ (گو صحیح معنی میں غزوہ وہ بھی نہیں) کہنا چاہئے کہ سب سے بڑا کا رنامہ ہے اور لڑائیاں چھوٹی بڑی جتنی بھی ہوئی سب کا مرکزی نقطہ یہی تھا۔ صلح حدیبیہ کا زمانہ فتح مکہ سے کوئی دوسال قبل کا ہے۔ قرآن مجید نے پیش خبری اسی وقت تعین کے ساتھ کردی تھی ﴿اناَّ فَتَحنَا لَکَ فَتحًا مُّبِینَا﴾(الفتح: 1) ”ہم نے اے پیغمبر! آپ کو ایک فتح دے دی کھلی ہوئی“ فتح سے آیت میں گو اشارہ قریب صلح حدیبیہ کی جانب ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ اشارہ بعید فتح مکہ کی جانب ہے۔ عرب اب جوق در جوق ایمان لارہے تھے اور قبیلے پر قبیلے اسلام میں داخل ہوتے جا رہے تھے۔ فتح مکہ چیز ہی ایسی تھی۔ قرآن مجید نے اس کی اپنی زبان بلیغ میں یوں نقشہ کشی کی ہے۔ ﴿إذا جَائَ نَصرُ اللّہِ وَالفَتحُ وَرَایتَ النَّاسَ یَدخُلُونَ فِی دِینِ اللّہِ افوَاجَا﴾(النصر: 1-2) جب آگئی اللہ کی مدد اور فتح مکہ اور آپ نے لوگوں کو دیکھ لیا کہ لوگ فوج کی فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں اور خیر یہ صورت تو فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی خود فتح اس طرح حاصل ہوئی کہ گو آنحضور ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابیوں کا لشکرتھا اور عرب کے بڑے بڑے پر قوت قبیلے اپنے الگ الگ جیش بناتے ہوئے اور اپنے اپنے پرچم اڑاتے ہوئے جلو میں تھے لیکن خونریزی دشمن کے اس شہر بلکہ دار الحکومت میں برائے نام ہی ہونے پائی اور شہر پر قبضہ بغیر خون کی ندیاں بہے گویا چپ چپاتے ہوگیا۔ ﴿وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا﴾(الفتح: 24) وہ اللہ وہی ہے جس نے روک دئے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے شہر مکہ میں بعد اس کے کہ تم کو اس نے ان پر فتح مند کردیا تھا۔ اس آ یت میں اشارہ جہاں بقول شار حین کے حدیبیہ کی طرف ہے وہیں بہ قول بعض دوسرے شارحین کے غیر خون پر فتح مکہ کی جانب ہے۔ فتح مکہ کا یہ عظیم الشان اور دنیا کی تاریخ کے لیے نادر اور یادگار واقعہ رمضان 8 مطابق جنوری 630 عیسوی میں پیش آیا۔ (قرآنی سیرت نبوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4313
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4313
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث مرسل ہے کیونکہ امام مجاہد تابعی ہیں کو رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں، البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دوسرے مقامات پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3189۔ ) 2۔ واضح رہے کہ مکہ مکرمہ آج تک حرم اور قیامت تک حرمت والا رہے گا۔ آج تک کسی غیر مسلم حکومت کا وہاں قیام نہیں ہوا اور نہ قیامت تک ہو سکے گا۔ حکومت سعودیہ نے بھی اس مقدس شہر کی حرمت و عزت کا بہت تحفظ کیا ہے۔ حرم پاک کی حفاظت کے لیے بے پناہ سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے اور وہاں آنے جانے والوں کو مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اللہ اس حکومت کو قائم و دائم رکھے۔ 3۔ چونکہ اس حدیث میں فتح مکہ کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے خطبے کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سےبیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 112۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4313
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2017
´حرم مکہ کی حرمت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرا دیا، تو آپ لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”اللہ نے ہی مکہ سے ہاتھیوں کو روکا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنین کا اقتدار قائم کیا، میرے لیے دن کی صرف ایک گھڑی حلال کی گئی اور پھر اب قیامت تک کے لیے حرام کر دی گئی، نہ وہاں (مکہ) کا درخت کاٹا جائے، نہ اس کا شکار بدکایا جائے، اور نہ وہاں کا لقطہٰ (پڑی ہوئی چیز) کسی کے لیے حلال ہے، بجز اس کے جو اس کی تشہیر کرے“، اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! سوائے اذخر کے ۱؎(ی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2017]
فوائد ومسائل: 1- مکہ مکرمہ کو قوت اور زور سے فتح کیا گیا تھا۔
2۔ حرم میں پناہ لینے والا جب تک حرم میں ہے۔ اسے کچھ نہیں کہاجائےگا۔
3۔ احادیث نبویہ کی کتابت وتدوین اگرچہ عارضی طور پر عمومی حکومت کے تحت ممنوع تھی۔ مگر بعض افراد کو ان کے لکھنے کی رخصت بھی دی گئی تھی۔ جیسے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صحیفہ زکواۃ کی تفصیلات اور حضرت ابو شاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خطبہ لکھوا کر عنایت فرمایا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2017