(مرفوع) حدثنا احمد بن واقد، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن حميد بن هلال، عن انس رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم نعى زيدا، وجعفرا، وابن رواحة للناس قبل ان ياتيهم خبرهم , فقال:" اخذ الراية زيد فاصيب، ثم اخذ جعفر فاصيب، ثم اخذ ابن رواحة فاصيب"، وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى زَيْدًا، وَجَعْفَرًا، وَابْنَ رَوَاحَةَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَهُمْ خَبَرُهُمْ , فَقَالَ:" أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَ جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ، ثُمَّ أَخَذَ ابْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ"، وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ حَتَّى أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ.
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
Narrated Anas: The Prophet had informed the people of the martyrdom of Zaid, Ja`far and Ibn Rawaha before the news of their death reached. The Prophet said, "Zaid took the flag (as the commander of the army) and was martyred, then Ja`far took it and was martyred, and then Ibn Rawaha took it and was martyred." At that time the Prophet's eyes were shedding tears. He added, "Then the flag was taken by a Sword amongst the Swords of Allah (i.e. Khalid) and Allah made them (i.e. the Muslims) victorious."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 561
نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيهم خبرهم فقال أخذ الراية زيد فأصيب ثم أخذ جعفر فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4262
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ اس غزوہ میں شریک نہ تھے۔ آپ یہ سب خبریں مدینہ میں بیٹھ کر صحابہ ؓ کو دے رہے تھے اور آپ کو بذیعہ وحی یہ سارے حالات معلوم ہو گئے تھے۔ آپ غیب داں نہیں تھے۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ اس جنگ میں دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھامے ہوئے تھے۔ دشمنوں نے وہ ہاتھ کاٹ ڈالا تو انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا لے لیا۔ دشمنوں نے اس کو بھی کاٹ ڈالا وہ شہید ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان کو جنت میں دو بازو پرندے کی طرح کے بخش دیئے ہیں وہ ان سے جنت میں جہاں چاہیں اڑتے پھرتے ہیں۔ لفظ طیار کے معنی اڑنے والے کے ہیں۔ اسی سے آپ کو جعفر طیار ؓ کے نام سے پکارا گیا رضي اللہ عنه وأرضاہ۔ حضرت جعفر ؓ کے دو بیٹے عبد اللہ اور محمد نامی تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان پر بڑی شفقت فرمائی۔ موسی بن عقبہ نے مغازی میں ذکر کیا ہے کہ یعلی بن امیہ اہل موتہ کی خبر لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو موتہ والوں کا حال مجھ کو سناؤ ورنہ میں خود ہی تم کو ان کا پورا حال سنا دیتا ہوں۔ (جو اللہ نے تمہارے آنے سے پہلے مجھ کو وحی کے ذریعہ بتلادیا ہے) چنانچہ خود آپ نے ان کا پورا حال بیان فرمادیا جسے سن کر یعلی بن امیہ کہنے لگے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اہل موتہ کے حالات سنانے میں ایک حرف کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ آپ کا بیان حرف بہ حرف صحیح ہے۔ (قسطلانی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4262
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4262
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت خالد بن ولید ؓ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوگئے تھے اور جب انھوں نے حضر ت عبداللہ بن رواحہ ؓ کی شہادت کے بعد اسلامی جھنڈا پکڑا تو اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کاحکم دیا، وہ پیچھے ہٹ کر پھر آگے بڑھے۔ رومیوں نے سمجھا کہ انھیں تازہ کمک(مدد) پہنچ گئی ہے، اس لیے وہ آگے بڑھے ہیں۔ اس موقع پر گھمسان کی جنگ ہوئی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق یوں دعا فرمائی: ”اے اللہ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما۔ “(السنن الکبری للنسائی: 69/5۔ ) اس وقت سے حضرت خالد بن ولید ؓ کو سیف اللہ(اللہ کی تلوار) کہا جاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ کسی کو مشروط سپہ سالار یا امیر بنانا جائزہے اور یہ بھی واضح ہواکہ بوقت ضرورت حاکم اعلیٰ کی اجازت کے بغیر امیر بنانا بھی جائز ہے۔ اس حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی واضح فضیلت ہے۔ (فتح الباري: 642/7۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4262
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1879
´موت کی خبر دینے کا بیان۔` انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید اور جعفر کی موت کی اطلاع (کسی آدمی کے ذریعہ) ان کی (موت) کی خبر آنے سے پہلے دی، اس وقت آپ کی دونوں آنکھیں اشکبار تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1879]
1879۔ اردو حاشیہ: ➊ موت کی اطلاع دینا درست ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں نعي سے روکا گیا ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: 385/5) دراصل اس سے مراد جاہلیت کے دور کی طرح موت کا اعلان ہے جو صرف فخر و مباہات کے لیے بڑے بڑے جھوٹے سچے القابات کے ذریعے سے کیا جاتا تھا، اس کا مقصد اطلاع کے بجائے فخر تھا اور وہ باقاعدہ پیش ور حضرات کے ذریعے سے بڑے اہتمام اور خرچ کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ ➋ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ صحابہ شام میں شہیدہوئے اور آپ نے مدینہ میں ان کی خبر دے دی۔ شام سے ان کی شہادت کی خبر بعد میں آئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1879
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3630
3630. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت جعفر اور حضرت زید ؓ کے شہید ہونے سے پہلے ہی ان کے شہید ہونے کی خبر دی۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3630]
حدیث حاشیہ: آپ کا رسول برحق ہونا بایں طور ثابت ہواکہ آپ نے وحی کے ذریعہ سے ایک دور دراز مقام پر ہونے والا واقعہ اطلاع آنے سے پہلے ہی بیان فرمایا۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔ اگر اہل بدعت کے خیال کے مطابق آپ عالم الغیب ہوتے تو سفر جہاد پر جانے سے پہلے ہی ان کو روک دیتے اور موت سے بچالیتے مگر آپ غیب دان نہیں تھے۔ آیت شریفہ }: 188 ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ﴾(قرآن) کا یہی مطلب ہے۔ وحی الٰہی سے خبردینا یہ امر دیگر ہے اس کو غیب دانی سے تعبیر کرنا ان لوگوں کاکام ہے جن کو فہم وفراست سے ایک ذرہ بھی نصیب نہیں ہوا ہے، کتب فقہ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جو آنحضرت ﷺ کو غیب داں جان کر کسی امر پر گواہ بنائے تو اس کی یہ حرکت اسے کفر تک پہنچادیتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3630
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3630
3630. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت جعفر اور حضرت زید ؓ کے شہید ہونے سے پہلے ہی ان کے شہید ہونے کی خبر دی۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3630]
حدیث حاشیہ: 1۔ جنگ موتہ میں مسلمان کفار سے جنگ کر رہے تھے عبد اللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ نے یکے بعد دیگرے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا اور شہید ہو گئے۔ 2۔ یہ حدیث بھی رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے کہ آپ کے خبر دینے کے مطابق ان دونوں حضرات نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کی تفصیل غزوہ موتہ میں آئے گی 3۔ بہر حال آپ نے وحی کے ذریعے سے ایک دور دراز مقام پر ہونے والا واقعہ اطلاع آنے سے پہلے ہی بیان کردیا۔ اہل بدعت کے خیال کے مطابق اگر آپ غیب دان ہوتے تو سفر جہاد پر جانے سے پہلے ہی ان کو روک لیتے اور انھیں موت سے بچا لیتے مگر آپ غیب دان نہیں تھے وحی الٰہی سے کسی غیب کی خبر دینا امر دیگر است۔ اسے غیب دانی سے تعبیر کرنا ان لوگوں کاکام ہے جنھیں فہم فراست سے ایک ذرہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3630