الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3136
3136. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کے ہجرت کرنے کی خبر اس وقت پہنچی جب ہم یمن میں تھے، اس لیے ہم بھی مہاجرین کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ میں تھا اور میرے دو بڑےبھائی: ان میں سے ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم تھا۔ ہماری قوم کے باون یا تریپن افراد تھے۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے جس نے ہمیں نجاشی بادشاہ کے پاس حبشہ پہنچادیا۔ وہاں اتفاقاً ہماری ملاقات حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ اور ان کے ساتھیوں سے ہوگئی۔ حضرت جعفر ؓ نے ہم سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور یہاں رہنے کا حکم دیا ہے، لہذا تم بھی ہمارے ساتھ رہو، چنانچہ ہم بھی وہاں ان کے ساتھ مقیم ہوگئے یہاں تک کہ ہم سب اکھٹے مدینہ طیبہ آئے۔ ہماری ملاقات نبی کریم ﷺ سے اس وقت ہوئی جب آپ خیبر فتح کرچکے تھے۔ آپ ﷺ نے مال غنیمت سے ہمارا حصہ مقرر فرمایا یا ہمیں اس میں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3136]
حدیث حاشیہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور آپ کے ساتھیوں نیز حضرت جعفر ؓ کے ہمراہ آنے والوں کو جو مال غنیمت سے حصہ دیا گیا اس کی مختلف توجیہایت علمائے امت نے بیان کی ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے غنیمت سے باضابطہ حصہ پانے والوں کو اعتماد میں لے کر انھیں حصہ دیا تھا جیسا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگوں کو دیا تھا اور اپنے صحابہ کو راضی کر لیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس مال اسے انھیں حصہ دیا تھا جو جنگ کے بغیر حاصل ہوا کیونکہ سارا خیبر بزور فتح نہیں ہواتھا بلکہ کچھ علاقے صلح سے زیر نگین ہو گئے تھے رسول اللہ ﷺ نے ان حضرات کو مال خمس سے حصہ دیا کیونکہ یہ منقول نہیں کہ آپ نے غزوہ خیبر میں شرکت کرنے والوں سے اجازت مانگی ہو۔
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنےقائم کردہ عنوان کے تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3136
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3876
3876. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم یمن میں تھے، جب نبی ﷺ کے متعلق ہمیں پتہ چلا کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آ گئے ہیں۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہمیں حبشہ میں لے گئی۔ وہاں ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کو پایا تو ان کے ساتھ اقامت اختیار کر لی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور نبی ﷺ سے اس وقت ملے جب آپ نے خیبر فتح کر لیا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3876]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے پہلے مکہ کی طرف ہجرت کی، اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں لوگوں کے ہمراہ حبشے کی طرف بھیج دیا وہ حبشہ جانے کے بجائے اپنی قوم کے علاقے کی طرف متوجہ ہوئے جو مشرقی جانب حبشہ کے بالمقابل ہے۔
جب انھیں خبر ملی کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ اپنی قوم کے مسلمانوں کےساتھ کشتی میں سوار ہوکر مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن سمندری لہروں نے انھیں حبشہ پہنچا دیا تو وہ سیدنا جعفر ؓ کے ساتھ وہیں رک گئے، پھر مدینہ طیبہ اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔
(فتح الباري: 237/7)
2۔
دو ہجرتیں یہ ہیں:
ایک مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف اور جن لوگوں نے ہجرت حبشہ نہیں کی تھی ان کے لیے صرف ایک ہی ہجرت ہے جو مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3876