Narrated Salama bin Al-Akwa`: We went out to Khaibar in the company of the Prophet. While we were proceeding at night, a man from the group said to 'Amir, "O 'Amir! Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, so he got down and started reciting for the people poetry that kept pace with the camels' footsteps, saying:-- "O Allah! Without You we Would not have been guided On the right path Neither would be have given In charity, nor would We have prayed. So please forgive us, what we have committed (i.e. our defects); let all of us Be sacrificed for Your Cause And send Sakina (i.e. calmness) Upon us to make our feet firm When we meet our enemy, and If they will call us towards An unjust thing, We will refuse. The infidels have made a hue and Cry to ask others' help Against us." The Prophet on that, asked, "Who is that (camel) driver (reciting poetry)?" The people said, "He is 'Amir bin Al-Akwa`." Then the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on him." A man amongst the people said, "O Allah's Prophet! has (martyrdom) been granted to him. Would that you let us enjoy his company longer." Then we reached and besieged Khaibar till we were afflicted with severe hunger. Then Allah helped the Muslims conquer it (i.e. Khaibar). In the evening of the day of the conquest of the city, the Muslims made huge fires. The Prophet said, "What are these fires? For cooking what, are you making the fire?" The people replied, "(For cooking) meat." He asked, "What kind of meat?" They (i.e. people) said, "The meat of donkeys." The Prophet said, "Throw away the meat and break the pots!" Some man said, "O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the pots instead?" He said, "(Yes, you can do) that too." So when the army files were arranged in rows (for the clash), 'Amir's sword was short and he aimed at the leg of a Jew to strike it, but the sharp blade of the sword returned to him and injured his own knee, and that caused him to die. When they returned from the battle, Allah's Apostle saw me (in a sad mood). He took my hand and said, "What is bothering you?" I replied, "Let my father and mother be sacrificed for you! The people say that the deeds of 'Amir are lost." The Prophet said, "Whoever says so, is mistaken, for 'Amir has got a double reward." The Prophet raised two fingers and added, "He (i.e. Amir) was a persevering struggler in the Cause of Allah and there are few 'Arabs who achieved the like of (good deeds) 'Amir had done."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 509
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4196
حدیث حاشیہ:
حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
عامر ؓ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔
ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔
بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم ﷺ کو عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4196
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4196
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔
وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6891)
ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔
2۔
حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔
ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔
ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔
(فتح الباري: 7/580)
3۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔
“ (صحیح مسلم، الجهاد،حدیث: 4678۔
(1807)
)
رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔
حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔
(فتح الباري: 582/7)
4۔
چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4196