(مرفوع) حدثني محمد بن عبد الرحيم، حدثنا حفص بن عمر ابو عمر الحوضي، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب، والحجاج الصواف , قال:حدثني ابو رجاء مولى ابي قلابة، وكان معه بالشام، ان عمر بن عبد العزيز استشار الناس يوما، قال:" ما تقولون في هذه القسامة؟"، فقالوا: حق قضى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقضت بها الخلفاء قبلك، قال: وابو قلابة خلف سريره، فقال عنبسة بن سعيد: فاين حديث انس في العرنيين؟، قال ابو قلابة: إياي، حدثه انس بن مالك، قال: عبد العزيز بن صهيب، عن انس، من عرينة، وقال ابو قلابة: عن انس، من عكل ذكر القصة.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ , قَالَ:حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، وَكَانَ مَعَهُ بِالشَّأْمِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ اسْتَشَارَ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ:" مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقَسَامَةِ؟"، فَقَالُوا: حَقٌّ قَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَضَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَبْلَكَ، قَالَ: وَأَبُو قِلَابَةَ خَلْفَ سَرِيرِهِ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ: فَأَيْنَ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي الْعُرَنِيِّينَ؟، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: إِيَّايَ، حَدَّثَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُرَيْنَةَ، وَقَالَ أَبُو قِلَابَةَ: عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُكْلٍ ذَكَرَ الْقِصَّةَ.
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعمر حفص بن عمر الحوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب اور حجاج صواف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوقلابہ کے مولیٰ ابورجاء نے بیان کیا ‘ وہ ابوقلابہ کے ساتھ شام میں تھے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس ”قسامہ“ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حق ہے۔ اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلفاء راشدین آپ سے پہلے کرتے رہے ہیں۔ ابورجاء نے بیان کیا کہ اس وقت ابوقلابہ ‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تخت کے پیچھے تھے۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے (اپنی روایت میں) انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابوقلابہ نے اپنی روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا۔
Narrated Abu Raja: The freed slave of Abu Qilaba, who was with Abu Qilaba in Sham: `Umar bin `Abdul `Aziz consulted the people saying, "What do you think of Qasama." They said, "'It is a right (judgment) which Allah's Apostle and the Caliphs before you acted on." Abu Qilaba was behind `Umar's bed. 'Anbasa bin Sa`id said, But what about the narration concerning the people of `Uraina?" Abu Qilaba said, "Anas bin Malik narrated it to me," and then narrated the whole story.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 506
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4193
حدیث حاشیہ: جب قتل کے گواہ نہ ہوں اور لاش کسی محلہ یا گاؤں میں ملے اوران لوگوں پر قتل کا شبہ ہو تو ان میں سے پچاس آدمی چن کر ان سے حلف لیا جاتا ہے اس کو قسامہ کہتے ہیں۔ عنبسہ کا خیال یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کے لیے قسامہ کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان سے قصاص لیا۔ عنبسہ کا یہ اعتراض صحیح نہ تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا اور قسامت وہاں ہوتی ہے جہاں ثبوت نہ ہو صرف اشتباہ ہو۔ حدیث میں قبیلہ عرینہ کا ذکر ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ روایت میں حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کا نام نامی ذکر ہوا ہے جو خلیفہ عادل کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کی امامت واجتہاد معرفت احادیث وآثار پر امت کا اتفاق ہے بلکہ آپ کو اپنے وقت کا مجدد اسلام تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کے اسلامی کارناموں میں بڑا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ کو تدوین حدیث اور کتابت حدیث کی منظم کوشش کا احساس ہوا۔ چنانچہ آپ نے اپنے نائب والی مدینہ ابوبکر حزمی کو فرمان بھیجا کہ رسول اکرم ﷺ کی احادیث صحیحہ کو مدون کرو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ لہذا احادیث کی مستند کتابیں جمع کر کے مجھ کو بھیجو۔ ابوبکر حزمی نے آپ کے فرمان کی تعمیل میں احادیث کے کئی ذخیرے جمع کرائے مگر وہ ان کو حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی حیات میں ان تک نہ پہنچا سکے۔ ہاں خلیفہ عادل نے حضرت ابن شہاب زہری کو بھی اس خدمت پر مامور فرمایا تھا اور ان کو جمع حدیث کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے دفتر کے دفتر جمع کئے اور ان کو خلیفہ وقت تک پہنچایا۔ آپ نے ان کی متعدد نقلیں اپنی قلم رو میں مختلف مقامات پر بھجوائیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو خلافت راشدہ کا خلیفہَ خامس قرار دیا گیا ہے۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4193
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4193
حدیث حاشیہ: 1۔ جب کسی محلے یا گاؤں میں لاش ملے اور ان لوگوں پر قتل کا شبہ ہو لیکن گواہ نہ ملیں تو ان میں سے پچاس آدمیوں کا انتخاب کرکے ان سے قسمیں لی جاتی ہیں کہ ہمیں اس قتل کا علم نہیں ہے۔ قسمیں لینے کی اس کاروائی کو قسامہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ عنبسہ بن سعید کو اس قسامہ سے اتفاق نہیں تھا، انھوں نے اس کے مقابلے میں عرنیین کا واقعہ پیش کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قسامہ کا حکم نہیں دیا بلکہ ان سے قصاص لیا ہے لیکن ان کا یہ اعتراض صحیح نہیں تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا جبکہ قسامہ وہاں ہوتا ہے جہاں قتل کے متعلق ثبوت اور گواہ نہ ہوں صرف شبہ ہو۔ مذکورہ واقعہ میں قبیلہ عرینہ اور عکل کے لوگوں نے اتفاق کر کے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کیا اور اسے مختلف عذاب دیے، پھر دودھ والے جانوروں کو بھگا کر لے گئے، اس لیے انھیں بطور قصاص قتل کیا گیا۔ 3۔ چونکہ اس حدیث میں عرنیین کا حوالہ تھا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے لیکن آئندہ کتاب الدیات میں اس حدیث کو تفصیل سے حدیث نمبر6899۔ کے تحت بیان کریں گے۔ ہم وہاں قسامہ کے متعلق تفصیل سے لکھیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4193