463. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جنگ خندق کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ ؓ کے ہاتھ کی رگ (ہفت اندام) میں تیر لگ گیا تو نبی ﷺ نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا تاکہ نزدیک سے ان کی عیادت کر لیا کریں اور مسجد میں بنوغفار کا خیمہ بھی تھا۔ پھر اچانک ان کی طرف خون بہہ کر آنے لگا تو لوگ اس سے خوفزدہ ہوئے، کہنے لگے: اے خیمے والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آ رہا ہے؟ دیکھا تو حضرت سعد ؓ کے زخم سے خون بہہ رہا تھا، چنانچہ وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:463]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ احکام مسجد کے متعلق بہت توسیع کا مسلک رکھتے ہیں، مذکورہ حدیث سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں زخمیوں بیماروں اور دیگر ضرورت مندوں کے لیے خیمہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس طرح کی ضرورت کے لیے مسجد کی خالی جگہ مناسب ہے۔
قائم کردہ عنوان کے دو اجزاء ہیں۔
بیماروں کے لیے خیمہ
دیگر ضروریات کے لیے خیمہ۔
روایت میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کے لیے مسجد میں خیمہ لگانے کا حکم دیا تھا، نیزمسجد میں ایک دوسرا خیمہ بھی لگا ہوا تھا جس میں بنو غفار قبیلے سے تعلق رکھنے والی رفیدہ نامی ایک صحابیہ اپنے متعلقین کے ساتھ مقیم تھیں۔
اس سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوگئے۔
واضح رہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کا خیمہ مسجد نبوی میں لگایا گیا تھا، کیونکہ بنو قریظہ نے جب حضرت سعد ؓ کو حکم بنانا منظور کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو بلانے کے لیے بھیجا۔
چنانچہ وہ گدھے پر سوار ہو کر تشریف لائے۔
جب ان کی سواری مسجد کے قریب آئی تو رسول اللہ ﷺ نے انصار سے فرمایا:
”اپنے سردار کا استقبال کرو۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4121) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زخمی ہونے کے بعد حضرت سعد ؓ کا قیام بنو قریظہ کے کسی محلے میں نہیں تھا، بلکہ انھیں کہیں دورسے سواری پر آنا پڑا۔
یہ سب قرآئن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حضرت سعد ؓ کا خیمہ مسجد نبوی میں تھا۔
2۔
جب حضرت سعد بن معاذ ؓ کے زخم کا خون بند نہیں ہو رہا تھا توانھوں نے اپنے رب کے حضوربایں الفاظ دعا فرمائی۔
”اے اللہ!تو جانتا ہے کہ مجھے اس قوم
(مشرکیبن) سے جہاد کرنا سب سے زیادہ محبوب ہے جنھوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انھیں وطن سے نکال دیا۔
اے اللہ!میں یہ گمان کرتا ہوں کہ اب تونے ہمارے اور ان مشرکین کے درمیان جنگ کو ختم کردیا ہے، اگر قریش کی جنگ میں سے کوئی حصہ باقی ہو تو مجھے زندہ رکھ تاکہ میں ان سے تیری خاطر جہاد کروں اور اگر جنگ ختم ہو گئی ہے تو میرے زخم کا منہ کھول دے اور اسی سبب سے میری موت مقدر فرمادے۔
“ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4121) اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔
چنانچہ وہ غزوہ بنو قریظہ میں فیصلے کے وقت تک زندہ رہے اس کے بعد اکحل کا وہ زخم کھل گیا جو وقتی طور پہ بند ہو گیا تھا اور اسی زخم کے سبب حضرت سعد ؓ کی شہادت کی موت کا شرف میسر آیا۔
اس سے متعلقہ دیگرتفصیلات کتاب المغازي اور کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔