ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق سبیعی نے ‘ ان سے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر (جب کفار کا لشکر ناکام واپس ہو گیا) فرمایا کہ اب ہم ان سے لڑیں گے۔ آئندہ وہ ہم پر چڑھ کر کبھی نہ آ سکیں گے۔
Narrated Sulaiman bin Surd: On the day of Al-Ahzab (i.e. clans) the Prophet said, (After this battle) we will go to attack them(i.e. the infidels) and they will not come to attack us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 435
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4109
حدیث حاشیہ: بخاری میں سلیمان بن صرد ؓ سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔ یہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ بوڑھے تھے جو حضرت حسین ؓ کے خون کا بدلہ لینے کوفہ سے نکلے تھے۔ مگر عین الوردہ کے مقام پر یہ اپنے ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ یہ 65 ھ کا واقعہ ہے۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4110
4110. حضرت سلیمان بن صرد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ سے لشکر دور کر دیے گئے تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے۔ انہیں ہم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہو گی۔ ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4110]
حدیث حاشیہ: جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔ اس کے دوسرے سا ل صلح حدیبیہ ہوئی جس میں قریش نے آپ سے معاہدہ کیا پھر خود ہی اسے توڑ ڈالا جس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا واقعہ وجود میں آیا۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4110
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4110
4110. حضرت سلیمان بن صرد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ سے لشکر دور کر دیے گئے تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے۔ انہیں ہم سے لڑنے کی طاقت نہیں ہو گی۔ ہم ان پر چڑھائی کریں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4110]
حدیث حاشیہ: جنگ احزاب ایک اعصابی جنگ تھی۔ اس میں کوئی خونریز معرکہ پیش نہیں آیا۔ اس کے باوجود ایک فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوئی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب کے دن اللہ سے دعا کی: ”اے اللہ! کتاب اتارنے والے، جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ!انھیں شکست سے دوچار کر اور انھیں جھنجھوڑ کررکھ دے۔ “(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2933) بالآخر رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں اور بروقت حکمت عملی کے نتیجے میں مشرکین کے حوصلے پست ہوگئے، ان کی صفوں میں پھوٹ پڑگئی اور وہ بدحالی کا شکار ہوگئے، نیز یہ واضح ہوگیا کہ عرب کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کی اس چھوٹی سی حکومت کو ختم نہیں کرسکتی کیونکہ جنگ احزاب میں جتنی طاقت فراہم ہوگئی تھی اس سے زیادہ طاقت فراہم کرنا عربوں کے بس کی بات نہ تھی۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پیش گوئی کےطور پر فرمایا: ”اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ہمارا لشکر ان کی طرف جائے گا۔ “ آپ کی پیش گوئی حرب بحرف پوری ہوئی۔ اگلے سال 6ہجری میں آپ عمرے کے لیے تشریف لے گئے۔ صلح حدیبیہ ہوئی جو فتح مکہ کا سبب بنی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند البزار کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب قریش نے احزاب کے دن بہت سی جماعتوں کو جمع کرلیا تو آپ نے فرمایا: ”آئندہ کے لیے یہ لوگ تم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ آج کے بعد تم لوگ ہی ان پر چڑھائی کرو گے۔ “(کشف الأستار علی زوائد مسند البزار: 221/2 وفتح الباري: 506/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4110