Narrated `Ikrima bin Khalid: Ibn `Umar said, "I went to Hafsa while water was dribbling from her twined braids. I said, 'The condition of the people is as you see, and no authority has been given to me.' Hafsa said, (to me), 'Go to them, and as they (i.e. the people) are waiting for you, and I am afraid your absence from them will produce division amongst them.' " So Hafsa did not leave Ibn `Umar till we went to them. When the people differed. Muawiya addressed the people saying, "'If anybody wants to say anything in this matter of the Caliphate, he should show up and not conceal himself, for we are more rightful to be a Caliph than he and his father." On that, Habib bin Masalama said (to Ibn `Umar), "Why don't you reply to him (i.e. Muawiya)?" `Abdullah bin `Umar said, "I untied my garment that was going round my back and legs while I was sitting and was about to say, 'He who fought against you and against your father for the sake of Islam, is more rightful to be a Caliph,' but I was afraid that my statement might produce differences amongst the people and cause bloodshed, and my statement might be interpreted not as I intended. (So I kept quiet) remembering what Allah has prepared in the Gardens of Paradise (for those who are patient and prefer the Hereafter to this worldly life)." Habib said, "You did what kept you safe and secure (i.e. you were wise in doing so).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 434
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4108
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فر ماتے ہیں:
مُرَادُهُ بِذَلِكَ مَا وَقَعَ بَيْنَ عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ مِنَ الْقِتَالِ فِي صِفِّينَ يَوْمَ اجْتِمَاعِ النَّاسِ عَلَى الْحُكُومَةِ بَيْنَهُمْ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ فَرَاسَلُوا بَقَايَا الصَّحَابَةِ مِنَ الْحَرَمَيْنِ وَغَيْرِهِمَا وَتَوَاعَدُوا عَلَى الِاجْتِمَاعِ لينظروا فِي ذَلِك فَشَاور بن عُمَرَ أُخْتَهُ فِي التَّوَجُّهِ إِلَيْهِمْ أَوْ عَدَمِهِ فَأَشَارَتْ عَلَيْهِ بِاللَّحَاقِ بِهِمْ خَشْيَةَ أَنْ يَنْشَأَ مِنْ غَيْبَتِهِ اخْتِلَافٌ يُفْضِي إِلَى اسْتِمْرَارِ الْفِتْنَةِ قَوْلُهُ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ أَيْ بَعْدَ أَنِ اخْتَلَفَ الْحَكَمَانِ وَهُمَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ وَكَانَ مِنْ قِبَلِ عَلِيٍّ وَعَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَكَانَ مِنْ قِبَلِ مُعَاوِيَةَ (فتح)
یعنی مراد وہ حکومت کا جھگڑا ہے جو صفین کے مقام پر حضرت علی ؓ اور معاویہ ؓ کے درمیان واقع ہوا۔
اس کے لیے حرمین کے بقایا صحابہ ؓ نے باہمی مراسلت کرکے اس قضیہ نا مرضیہ کو ختم کرنے میں کوشش کرنے کے لیے ایک مجلس شوری کو بلایا جس میں شرکت کے لیے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے بہن سے مشورہ کیا۔
بہن کا مشورہ یہی ہوا کہ تم کو بھی اس مجلس میں ضرور شریک ہونا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ تمہاری طرف سے لوگوں میں خواہ مخواہ بد گمانیاں پیدا ہو جائیں گی جن کا نتیجہ موجودہ فتنے کے ہمیشہ جاری رہنے کی صورت میں ظاہر ہو تو یہ اچھا نہ ہوگا۔
جب مجلس شوری ختم ہوئی تو معاملہ دونوں طرف سے ایک ایک پنچ کے انتخاب پر ختم ہوا۔
چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ حضرت علی ؓ کی طرف سے اور حضرت عمرو بن العاص ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے پنچ قرار پائے۔
بعد میں وہ ہوا جو مشہور ومعروف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4108
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4108
حدیث حاشیہ:
1۔
غزوہ احزاب میں اگرچہ باقاعدہ جنگ کی صورت نہیں تھی لیکن کفر نے ایک متحدہ محاذ کی شکل میں اسلام اور اہل اسلام کو ختم کرنے کے لیے مدینے پر چڑھائی کی۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و کامیابی سے ہمکنار کیا۔
انھوں نے خندق کھود کر شہر کو ان کے حملے سے محفوظ کر لیا تھا اور کفار اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے اور ناکام واپس لوٹ گئے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو حضرت ابن عمر ؓ کے اس ارشاد کی بنا پر پیش کیا جو انھوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ ”تم سے زیادہ خلافت کا حق دار وہ ہے جس نے تم سے اور تمھارے باپ سے اسلام کی سر بلندی کے لیے جنگ لڑی تھی۔
“ یعنی غزوہ احد اور خندق کے دن معاویہ اور ان کے باپ ابو سفیان سے قتال کیا۔
اس مقابلے میں حضرت علی ؓ مہاجرین اور حاضرین خندق ؓ مراد ہیں جن میں حضرت ابن عمر ؓ بھی شامل تھے۔
اس اعتبار سے اس واقعے کو غزوہ خندق کے عنوان میں لایا گیا ہے 3۔
بنو ہاشم زہدہ وتقوی میں پیش تھے جبکہ بنو امیہ میں طاقت اور دولت تھی چنانچہ جب تک ان میں قوت رہی انھوں نے بنو ہاشم کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا۔
حضرت ابو سفیان ؓ تو آخر وقت تک مسلمانوں سے لڑتے رہے آخر فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔
4۔
حضرت ابن عمر ؓ کا موقف تھا کہ فاضل کی موجود گی میں مغضول کے ہاتھ پر بیعت کر لینا مسلمانوں کی خونریزی سے بہترہے اس لیے انھوں نے حضرت معاویہ ؓ اور ان کے بیٹے یزید سے بیعت کی۔
5۔
بہرحال اس حدیث کی غزوہ خندق سے یہ مناسبت ہے کہ خلفائے راشدین ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ غزوہ خندق میں موجود تھے جبکہ ابو سفیان اور حضرت معاویہ ؓ اس وقت مخالف اسلام تھےاس مقام پر خلافت اور حکومت کے استحقاق سے بحث مقصود نہیں وہ ہم کتاب الاحکام میں بیان کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4108