(مرفوع) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، ان ابا بكر دخل عليها والنبي صلى الله عليه وسلم عندها يوم فطر او اضحى , وعندها قينتان تغنيان بما تقاذفت الانصار يوم بعاث، فقال ابو بكر:" مزمار الشيطان مرتين"، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" دعهما يا ابا بكر إن لكل قوم عيدا , وإن عيدنا هذا اليوم".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى , وَعِنْدَهَا قَيْنَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاذَفَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:" مِزْمَارُ الشَّيْطَانِ مَرَّتَيْنِ"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا , وَإِنَّ عِيدَنَا هَذَا الْيَوْمُ".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف رکھتے تھے عیدالفطر یا عید الاضحی کا دن تھا، دو لڑکیاں یوم بعاث کے بارے میں وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جو انصار کے شعراء نے اپنے فخر میں کہے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ شیطانی گانے باجے! (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں) دو مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابوبکر! انہیں چھوڑ دو۔ ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج کا یہ دن ہے۔“
Narrated Aisha: That once Abu Bakr came to her on the day of `Id-ul-Fitr or `Id ul Adha while the Prophet was with her and there were two girl singers with her, singing songs of the Ansar about the day of Buath. Abu Bakr said twice. "Musical instrument of Satan!" But the Prophet said, "Leave them Abu Bakr, for every nation has an `Id (i.e. festival) and this day is our `Id."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 268
دخل علي رسول الله وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث فاضطجع على الفراش وحول وجهه فدخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند رسول الله فأقبل عليه رسول الله فقال دعهما فلما غفل غمزتهما فخرجتا كان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب فإما سألت رسول الله وإما
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3931
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مناسبت باب سے مشکل ہے اس میں ہجرت کا ذکر نہیں ہے، مگر شاید حضرت امام بخاری ؒ نے اس کو اگلی حدیث کی منا سبت سے ذکرکیا جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے (وحیدی) قسطلانی میں ہے۔ ومطابقة ھذاالحدیث للترجمة قال العیني رحمه اللہ تعالیٰ من حیث أنه مطابق للحدیث السابق في ذکر یوم بعاث والمطا بق للمطابق مطابق قال ولم أر أحدا ذکرله مطابقة کذا قال فلیتأمل۔ خلاصہ وہی ہے جو مذکور ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3931
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3931
باب اور حدیث میں مناسبت صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3931 کا باب: «بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:» ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ہجرت کا ذکر فرمایا ہے، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں ہجرت کے کوئی الفاظ موجود نہیں، لہٰذا ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جتنی بھی احادیث کا ذکر فرمایا ہے ان سب کا تعلق یا ترجمۃ الباب سے ہے یا پھر ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے وہ تمام احادیث کا تعلق اور مناسبت ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہے۔ ابویحیٰی ذکریا الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ومطابقة للترجمة من محذوف ذكره فى الحديث السابق عقب قصة بعاث، وهو قوله: فقدم روسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة .»[منحة الباري، شرح صحيح البخاري: 194/7] ”ترجمۃ الباب سے مطابقت سابق حدیث میں ہے، جس میں بعاث کے قصہ کا ذکر ہے، اور ان کا قول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔“ انہیں الفاظ میں ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ہو گی، کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث 3930 میں واضح طور پر جنگ بعاث کا ذکر ہے، گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو لاکر سابقہ حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جس سے ترجمۃ الباب میں مناسب قائم ہو جاتی ہے اور مزید یہ ہے کہ سابقہ حدیث کے الفاظ «فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة» جو کہ واضح طور پر ترجمہ الباب کی حدیث سے مناسبت کی دلیل فراہم کرتی ہے۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة للترجمة من حيث إنه مطابق للحديث السابق فما ذكر يوم بعاث.»[عمدة القاري للعيني: 90/17] ”ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت اس حدیث کے ساتھ ہے جو سابقہ ہے، جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے۔“ یعنی حدیث 3931 کا تعلق سابق حدیث 3930 سے ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اشارۃً اس حدیث کا ذکر فرما رہے ہیں جس میں جنگ بعاث کا ذکر ہے، جس حدیث نمبر 3930 سے حدیث نمبر 3931 کی مناسبت جنگ بعاث کے الفاظ سے قائم ہوئی تو حدیث نمبر 3930 میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا ذکر موجود ہے، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود ہے۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3931
حدیث حاشیہ: 1۔ یوم بعاث رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے دس سال پہلے ہوا تھا۔ اس میں انصار کی جنگ ہوئی جس میں بہت سے سردار مارے گئے جیسا کہ قبل ازیں حدیث میں بیان ہوا ہے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ اس سے معلوم ہوکہ یوم بعاث انصار کے لیے فال ثابت ہوا اور مہاجرین کے لیے بھی خیرو برکت کا ذریعہ بنا کہ انصار نے ان کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ اگرسردار زندہ ہوتے تو شاید یہ اعزاز واکرام انھیں نہ ملتا۔ 3۔ اس حدیث سے صوفیاء نے سماع کے جواز پر استدلال کیا اور آج بھی گانے بجانے کے دلدادہ اس حدیث کو پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ بچیاں گانے والی پیشہ ور گلو کارہ نہیں تھیں بلکہ انصار کی چھوٹی بچیاں تھیں پھر اشعار بھی غزلیہ قسم کے نہ تھے بلکہ جنگی ترانے تھے جن میں بہادری اور شجاعت کا ذکر تھا وہ بھی اپنوں میں گائے جارہے تھے بر سر عام اسٹیج پر فنکاری ”کے جوہر“ دکھانے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔ 4۔ قرآن و حدیث میں گانے بجانے کو واضح طور پر حرام قراردیا گیا ہے جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3931
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1594
´عید کے دن دف بجانے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، تو ان دونوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ڈانٹا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں چھوڑو (بجانے دو) کیونکہ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے“(جس میں لوگ کھیلتے کودتے اور خوشی مناتے ہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1594]
1594۔ اردو حاشیہ: ➊ دف بجانا غیرضروری کام تو ہے مگر حرام نہیں، لہٰذا خوشی کے موقع پر نابالغ و غیرمکلف بچیاں اگر یہ کام کر لیں تو عید کی وسعت چشم پوشی کا تقاضا کرتی ہے۔ اگرچہ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی مگر روکا بھی نہیں جائے گا، البتہ حرام کام، مثلاً: موسیقی یا ڈھول وغیرہ، کو روکا جائے گا۔ حوصلہ افزائی تو کسی صورت بھی نہ کی جائے گی۔ جبکہ دیگر احادیث میں ہے کہ آپ چہرہ انور ڈھانپ کرلیٹے ہوئے تھے۔ دیکھیے: (حدیث: 1598 اور اس کے فوائد ملاحظہ فرمائیے) گویا نہ ان کی طرف توجہ کی، نہ دیکھا، نہ ان سے پیار کیا، نہ شاباش دی بلکہ اعراض کیا اور چشم پوشی فرمائی۔ ➋ عید اور شادی وغیرہ کے موقع پر اگر چھوٹی بچیاں اپنے طور پر دف بجالیں اور پاکیزہ گانے گالیں تو کوئی حرج نہیں، البتہ اس کام کا اہتمام نہ کیا جائے۔ ➌ دف نصف ڈھول کو کہہ سکتے ہیں، یعنی ایک طرف سے بند اور دوسری طرف سے کھلا۔ اسے بجانے سے زیادہ آواز نہیں پیدا ہوتی۔ گھڑا یا پرات وغیرہ بجانا بھی دف کی ذیل میں آسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بجانے والیں نابالغ بچیاں ہوں، البتہ ڈھول کی آواز بہت بلند اور مکروہ ہوتی ہے، لہٰذا وہ منع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1594
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1898
´(شادی بیاہ میں) گانے اور دف بجانے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے، اس وقت میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں ایسے اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے دن کہے تھے، اور وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہ تھیں، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کا باجا ہو رہا ہے، اور یہ عید الفطر کا دن تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، اور یہ ہماری عید ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1898]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جنگ بعاث ایک جنگ کا نام ہے جو اہل مدینہ میں اس وقت ہوئی تھی جب اہل مدینہ کو ابھی قبول اسلام کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس مناسبت سے ہر قبیلے کے شعراء نے جو شیلے شعر کہے تھے۔
(2) شعر کہنا سننا جائز ہیں بشرطیکہ شرعی حدود کے اندر ہوں۔
(3) گانے کا پیشہ اختیار کرنا اسلامی معاشرے میں ایک مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے افراد قابل احترام نہیں بلکہ قابل نفرت ہیں۔
(4) غلط کام ہوتا دیکھ کر سختی سے ڈانٹا جا سکتا ہے جبکہ ڈانٹنے والا اس مقام کا حامل ہو کہ غلطی کرنے والا اس کا احترام کرتا ہو اور اس کی ناراضی سے ڈرتا ہو۔
(5) عید اور شادی وغیرہ کے موقع پر تفریحی پروگرام جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو تاہم اس واقعہ سے راگ رنگ کی مخلوط محفلوں اور بے ہودہ گاہوں کا جواز نکالنے کی کوشش کرنا غلط ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1898
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2063
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ ایام منیٰ (عید کے دن) میں میرے پاس دو بچیاں گارہی تھیں۔اور دف بجا رہی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے لیٹے ہوئے تھے،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ڈانٹا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا ہٹا کر فرمایا: ”ابو بکر! انھیں چھوڑیئے کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2063]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) جارية: نوخیز لڑکی۔ (2) تقاولت الانصار: وہ اشعار جو اوس اور خزرج نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنی جراءت و بسالت اور تفوق و برتری کے اظہار کے لیے کہے تھے۔ بعاث، اوس کے قلعہ کا نام ہے اور یوم بعاث سے مراد وہ وقت ہے جبکہ انصار کے دونوں قبیلوں اوس اور خزرج کے درمیان جاہلیت کے دور میں معرکہ برپا ہوا تھا اور اس میں قبیلہ اوس غالب رہا تھا۔ (3) ليست بمغنتين: گانا بجانا ان کا فن یا عادت نہ تھی کہ وہ نفسانی خواہشات و جذبات کو بھڑکاتیں، اور شہوت انگیز اشعار اور عورتوں کے حسن و جمال کے تذکرہ سے خواہشات کو مشتعل کرتیں اور حرام کاری کی تحریک پیدا کرتیں۔ (4) مزمور: زمیر سے ماخوذ ہے۔ حسن صوت سریلی آواز اور خوش الحانی کو کہتے ہیں۔ اور عربی زبان میں خوش الحانی سے شعر پڑھنے کو بھی غنا گانا سے تعبیر کرتے ہیں۔ دف، ڈفلی: جو چمڑے سے بنائی جاتی ہے اور ڈھولکی کی طرح اس کو بجاتے ہیں، لیکن وہ ایک طرف سے کھلی ہوتی ہے۔ اس لیے اس سے زیادہ آواز پیدا نہیں ہوتی۔ ایام منیٰ: اس سے مراد ایام تشریق گیارہ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن ہیں۔ (5) فاقدروا: اندازہ لگاؤ، قیاس کرو۔ (6) العربة: کھیل کی شوقین اور اس میں انتہائی دلچسپی لینے والی۔ فوائد ومسائل: 1۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خوشی اور مسرت وشادمانی کے موقع پر بچیاں جو پیشہ ور مغنیہ نہ ہوں اور وہ جسم کے مختلف پوز بنا کر اپنے جسمانی شہوت انگیز اعضاء کو عریاں نہ کر رہی ہوں اور وہ نفس میں ہیجان پیدا کرنے والے اور جذبات کو بھڑکانے والے فحش اشعار نہ پڑھ رہی ہوں۔ تو ایسے اشعار جو کسی کی مدح وتوصف پر مشتمل ہوں ان میں کوئی گناہ نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ بچیاں جنگی اشعار جن میں اپنے قومی مفاخر اور کارنامے بیان کیے گئے تھے یا اپنی قوم کی شجاعت وبہادری اور ان کے ظہور وغلبہ کا تذکرہ تھا پڑھ رہی تھیں۔ اور اس کے باجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ دوسری طرف کر کے چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا یہ کام جائز تو ہے پسندیدہ نہیں ہے وگرنہ آپﷺ اس میں دلچسپی اور رغبت کا اظہار کرتے۔ اس لیے ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق گانے گانا ناجائز ہے۔ اس طرح آلات موسیقی معازف کی صورت میں ہوں جن کو ہاتھ سے بجایا جاتا ہے یا مزامیر کی شکل میں جن کو منہ سے بجانا ہے کا سننا حرام ہے۔ ہاں نکاح، عید اور ولیمہ کے وقت دف بجانے کی اجازت ہے۔ اس لیے ائمہ اربعہ دف کو ان تین مواقع پر ہی بجانے کی اجازت دیتے ہیں یہ اجازت عام نہیں ہے۔ اور اس سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے۔ جہاں جہاں آلات موسیقی کا عمل دخل ہے وہ سب کام حرام ہیں مثلاً ریڈیو۔ ٹی وی۔ وی سی آر اوراس قسم کے دوسرے آلات۔ خاص کر جب کہ یہ پروگرام عورتیں ننگے منہ اورننگے سر کرتی ہیں اور یہ پروگرام عموماً مغرب اخلاق اور عریانی وفحاشی۔ رہزنی اور دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں اور نوجوانوں کے اخلاق اور ان کی سیرت وکردار کو تباہ کررہے ہیں۔ اس لیے ان میں آلات کا کاروبارکرنا خریدوفروخت کرنا اور ان کا سننا سب شرعاً حرام ہیں۔ 2۔ حبشیوں کے کھیل کا واقعہ 7 ہجری میں پیش آیا جبکہ حبشہ سے وفد آیا تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آلات جنگ کے ساتھ کھیلنا اور جنگی آلات کے کرتب دکھانا جائز ہے۔ کیونکہ یہ ہتھیاراور آلات جنگ میں کام آتے ہیں اور ان کے کھیل اور کرتب سے ان کے استعمال میں مہارت اور ٹریننگ حاصل ہوتی ہے اس لیے فوج اور مجاہدین کا فوجی اور جہادی مظاہرے کرنا درست ہے تاکہ دوسروں کے دلوں میں بھی ان کی تربیت لینے کا شوق اور ولولہ پیدا ہو۔ فوج اور مجاہدین کی تربیت میں بھی کمال اور ہنر مندی پیدا ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2063
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 952
952. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس وقت تشریف لائے جب انصار کی دو بچیاں وہ شعر گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر ایک دوسرے کے متعلق پڑھے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے وضاحت کی کہ وہ بچیاں معروف گلوکارائیں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہ شیطانی ساز، رسول اللہ ﷺ کے گھر میں موجود ہیں، باعث تعجب ہے۔ یہ واقعہ عید کے دن کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے (جس دن وہ خشیاں مناتے ہیں) یہ ہمارا عید کا دن ہے (اس لیے انہیں خوشیاں منانے دو)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:952]
حدیث حاشیہ: قال الخطابي یوم بعاث یو م مشھود من أیام العرب کانت فیه مقتلة عظیمة للأوس والخرزرج ولقیت الحربة قائمة مائة وعشرین سنة إلی الإسلام علی ما ذکر ابن إسحاق وغیرہ۔ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی۔ (فتح الباري) اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت ﷺ نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میںخرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان (تسہیل القاری، پ: 4ص326/39) بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ ازراہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 952
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:952
952. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس وقت تشریف لائے جب انصار کی دو بچیاں وہ شعر گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر ایک دوسرے کے متعلق پڑھے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے وضاحت کی کہ وہ بچیاں معروف گلوکارائیں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہ شیطانی ساز، رسول اللہ ﷺ کے گھر میں موجود ہیں، باعث تعجب ہے۔ یہ واقعہ عید کے دن کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے (جس دن وہ خشیاں مناتے ہیں) یہ ہمارا عید کا دن ہے (اس لیے انہیں خوشیاں منانے دو)۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:952]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کی عید میں جائز قسم کے کھیل تماشے مباح ہیں لیکن اس سے پہلے نماز ادا کی جائے اور خود کو عبادت میں مصروف رکھا جائے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کا گانا وغیرہ اس وقت جائز ہے جب اس میں کوئی ہیجان انگیز اشعار نہ ہوں اور اجتماع مخلوط نہ ہو، نیز آلات محرمہ نہ ہوں اور نہ کسی عبادت ہی کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس کے متعلق ہم تفصیلی نوٹ قبل ازیں لکھ چکے ہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عید کے دن تمام مسلمانوں کے لیے سب کھیل تماشے، دل بہلانے کے طریقے، خوشی منانے کے انداز جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت اور گناہ کا اندیشہ نہ ہو۔ (2) اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے جائز تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطانی آوازیں کیوں قرار دیا؟ اور اگر ناجائز تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں کیوں برقرار رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اشعار، ممنوعہ گیتوں پر مشتمل نہ تھے بلکہ جنگی کارناموں پر مشتمل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں برقرار رکھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سدباب کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا کہ آئندہ لوگ اسے غیر مباح کاموں کے لیے بطور ذریعہ استعمال کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 952