(موقوف) حدثنا اصبغ، حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، ان ابا بكر رضي الله عنه تزوج امراة من كلب، يقال لها: ام بكر , فلما هاجر ابو بكر طلقها , فتزوجها ابن عمها هذا الشاعر الذي، قال هذه القصيدة رثى كفار قريش: وماذا بالقليب قليب بدر من الشيزى تزين بالسنام وماذا بالقليب قليب بدر من القينات والشرب الكرام تحيينا السلامة ام بكر وهل لي بعد قومي من سلام يحدثنا الرسول بان سنحيا وكيف حياة اصداء وهام.(موقوف) حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ كَلْبٍ، يُقَالُ لَهَا: أُمُّ بَكْرٍ , فَلَمَّا هَاجَرَ أَبُو بَكْرٍ طَلَّقَهَا , فَتَزَوَّجَهَا ابْنُ عَمِّهَا هَذَا الشَّاعِرُ الَّذِي، قَالَ هَذِهِ الْقَصِيدَةَ رَثَى كُفَّارَ قُرَيْشٍ: وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ مِنَ الشِّيزَى تُزَيَّنُ بِالسَّنَامِ وَمَاذَا بِالْقَلِيبِ قَلِيبِ بَدْرٍ مِنَ الْقَيْنَاتِ وَالشَّرْبِ الْكِرَامِ تُحَيِّينَا السَّلَامَةَ أُمُّ بَكْرٍ وَهَلْ لِي بَعْدَ قَوْمِي مِنْ سَلَامِ يُحَدِّثُنَا الرَّسُولُ بِأَنْ سَنَحْيَا وَكَيْفَ حَيَاةُ أَصْدَاءٍ وَهَامِ.
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبیلہ بنوکلب کی ایک عورت ام بکر نامی سے شادی کر لی تھی۔ پھر جب انہوں نے ہجرت کی تو اسے طلاق دے آئے۔ اس عورت سے پھر اس کے چچا زاد بھائی (ابوبکر شداد بن اسود) نے شادی کر لی تھی، یہ شخص شاعر تھا اور اسی نے یہ مشہور مرثیہ کفار قریش کے بارے میں کہا تھا ”مقام بدر کے کنوؤں کو میں کیا کہوں کہ انہوں نے ہمیں درخت شیزیٰ کے بڑے بڑے پیالوں سے محروم کر دیا جو کبھی اونٹ کے کوہان کے گوشت سے بہتر ہوا کرتے تھے، میں بدر کے کنوؤں کو کیا کہوں! انہوں نے ہمیں گانے والی لونڈیوں اور اچھے شرابیوں سے محروم کر دیا ام بکر تو مجھے سلامتی کی دعا دیتی رہی لیکن میری قوم کی بربادی کے بعد میرے لیے سلامتی کہاں ہے یہ رسول ہمیں دوبارہ زندگی کی خبریں بیان کرتا ہے۔ کہیں الو بن جانے کے بعد پھر زندگی کس طرح ممکن ہے۔
Narrate Aisha: Abu Bakr married a woman from the tribe of Bani Kalb, called Um Bakr. When Abu Bakr migrated to Medina, he divorced her and she was married by her cousin, the poet who said the following poem lamenting the infidels of Quraish: "What is there kept in the well, The well of Badr, (The owners of) the trays of Roasted camel humps? What is there kept in the well, The well of Badr, (The owners of) lady singers And friends of the honorable companions; who used to drink (wine) together, Um Bakr greets us With the greeting of peace, But can I find peace After my people have gone? The Apostle tells us that We shall live again, But what sort of life will owls and skulls live?:
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 258
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3921
حدیث حاشیہ: جاہلیت میں عرب کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مردے کی کھوپڑی سے روح نکل کر الو کے قالب میں جنم لیتی ہے اور دوستوں کو آواز دیتی پھر تی ہے۔ ابو بکر شداد بن اسود بہ حالت کفر بدر کے مقتولین کفار مکہ کا مرثیہ کہہ رہا ہے جس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ بدر کے کنویں میں مرے پڑے ہیں جو لوگوں کے سامنے اونٹ کے کوہان کا گوشت جو عربوں کے نزدیک نہایت لذیذ ہوتا ہے درخت شیزیٰ کی لکڑی کے پیالوں میں بھر بھررکھا کرتے تھے۔ شیزیٰ ایک درخت ہے جس کی لکڑی کے پیالے بناتے ہیں۔ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو ان پیالوں کا استعمال کرتے ہیں یعنی بڑے امیر سرمایہ دار لوگ جو رات دن شراب خوری اور ناچ رنگ گانے بجانے والیوں کی صحبت میںرہا کرتے تھے۔ مرثیہ میں مذکور ہ ام بکر اس کی بیوی ہے جو پہلے حضرت صدیق اکبر ؓ کے نکاح میں تھی۔ آخر ی شعر کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے لوگ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح الو کے جسم میں جنم لیتی ہے اور الوؤں کو پکارتی پھرتی ہے شاعر کی مراد یہ ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ انسانی قالب میں زندہ ہو نے کے بارے میں پیغمبر کا کہنا غلط ہے حشر نشر کچھ نہیں ہے اور روحیں الوبن کر دوبارہ آدمی کے قالب میں کیونکر آسکتی ہیں کافروں کا یہ عقیدہ فاسدہ ہے جس کی تردید سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے۔ اس مرثیہ کا منظوم تر جمہ مولانا وحید الزماں مرحوم کے لفظوں میں یہ ہے۔ گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے پڑے ہیں اونٹ کے کوہان کے عمدہ پیالے گڑھے میں بدر کے کیا ہے ارے او سننے والے شرابی ہیں وہاں گانا بجانا سننے والے سلامت رہ جو کہتی ہے مجھے یہ ام بکری کہاں ہے سلامت جب مرے سب قوم والے یہ پیغمبر ہمیں کہتا ہے تم مر کر جیو گے کہیں الو بھی پھر انساں ہوئے آواز والے شاعر مذکور کے بارے میں منقول ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا بعد میں مرتد ہو گیا۔ لفظ ھامة تخفیف میم کے ساتھ ہے عرب جاہلیت کا اعتقاد تھا کہ مقتول جنگی کا قصاص نہ لیا جائے تو اس کی روح الو کے جسم میں جنم لے کر اپنی قبر پر روزانہ آکر یہ کہتی ہے کہ میرے قاتل کا خون مجھ کو پلاؤ جب اس کا قصاص لے لیا جاتاہے تو وہ اڑجاتی ہے۔ (قسطلانی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3921
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3921
حدیث حاشیہ: 1۔ فاکہی نے اس حدیث میں اضافہ بیان کیا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ”للہ کی قسم!ابو بکر ؓ نے جاہلیت اور اسلام میں کبھی شعر نہیں کہا اور انھوں نے کبھی شراب نوشی نہیں کی۔ “ اور یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضرت ابو بکر ؓ نے حرمت شراب سے قبل شراب نوشی کی تھی کیونکہ اُم المومنین ؓ اپنے والد گرامی کا حال زیادہ جاننے والی ہیں حضرت ابو بکر ؓ کے شراب پینے کی روایت ابو القموص نے بیان کی ہے جس کی ملاقات حضرت ابو بکر ؓ سے ثابت نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کینہ پرور رافضی تھا۔ (فتح الباري: 322/7۔ 2323) 2۔ "الشِّيزَى" آبنوس کا درخت ہے جس سے بڑے بڑے پیالے بنائے جاتے تھے۔ ان میں اونٹ کے گوشت کو سجا کر رکھا جاتا اور آنے والے مہمانوں کو پیش کیا جاتا تھا اس وقت نوجوان باندیاں گانا گاتیں اور شراب نوشی کا دور چلتا تھا شاعر انھیں یاد کر کے مقتولین بدر کا مرثیہ کہہ رہا ہے۔ 3۔ اس حدیث میں ہجرت سےمتعلقہ ایک واقعہ ہے کہ ابو بکر ؓ نے آتے وقت ام بکر نامی اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3921