Narrated Abu Burda Bin Abi Musa Al-Ash`ari: `Abdullah bin `Umar said to me, "Do you know what my father said to your father once?" I said, "No." He said, "My father said to your father, 'O Abu Musa, will it please you that we will be rewarded for our conversion to Islam with Allah's Apostle and our migration with him, and our Jihad with him and all our good deeds which we did, with him, and that all the deeds we did after his death will be disregarded whether good or bad?' Your father (i.e. Abu Musa) said, 'No, by Allah, we took part in Jihad after Allah's Apostle , prayed and did plenty of good deeds, and many people have embraced Islam at our hands, and no doubt, we expect rewards from Allah for these good deeds.' On that my father (i.e. `Umar) said, 'As for myself, By Him in Whose Hand `Umar's soul is, I wish that the deeds done by us at the time of the Prophet remain rewardable while whatsoever we did after the death of the Prophet be enough to save us from Punishment in that the good deeds compensate for the bad ones.' " On that I said (to Ibn `Umar), "By Allah, your father was better than my father!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 254
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3915
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کا یہ قول کہ نہ ان کا ثواب ملے اور نہ ان کی وجہ سے عذاب ہو یہ آپ کی بے انتہا خدا ترسی اور احتیاط تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو اعمال خیر ہم نے کئے ہیں ان پر ہم کو پورا بھروسا نہیں وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئے یا نہیں ہماری نیت ان میں خالص تھی یا نہیں تو ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو اعمال ہم نے کئے ہیں ان کا تو ثواب ہم کو مل جائے نجات کےلئے وہی اعمال کافی ہیں اور آپ کے بعد جو اعمال ہیں ان میں ہم کو کوئی مواخذہ نہ ہو ثواب نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے کہ عذاب نہ ہو۔
کیونکہ خوف کا مقام رجاء کے مقام سے اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ اس باب میں بھی ابو موسیٰ ؓ سے افضل تھے ورنہ حضرت عمر ؓ کی افضیلت مطلقہ ابو موسیٰ ؓ پر تو بالاتفاق ثابت ہے۔
حافظ نے کہا کبھی مفضول کو بھی ایک خاص مقدمہ میں فاضل پر افضلیت ہوتی ہے اور اس سے افضلیت مطلقہ لازم نہیں آتی اور حضرت عمرؓ کا یہ فرمانا کسر نفس اور تواضع اور خوف الٰہی سے تھا ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل اور انصاف ہمارے تمام عمر کے نیک اعمال سے کہیں زیادہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے اگر کوئی منصف آدمی گو وہ کسی مذہب کا ہو حضرت عمر ؓ کی سوانح عمری پر نظر ڈالے تو اس کو بلا شبہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ما در گیتی نے ایسا فرزند بہت ہی کم جنا ہے۔
اور مسلمانوں میں تو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل خدا پرست خدا ترس رعیت پر ور حاکم پیدا نہیں ہوا۔
معلوم نہیں رافضیوں کی عقل کہاں تشریف لے گئی ہے کہ وہ ایسے جوہر نفیس کو جس کی ذات سے اسلام اور مسلمانوں کا شرف ہے مطعون کرتے ہیں۔
خدا سمجھے اس کا خمیازہ مرتے ہی ان کومعلوم ہو جائے گا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3915
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3915
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں حضرت ابو بردہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت ابن عمر ؓ کے پہلو میں نماز پڑھی۔
میں نےا نس ےسنا۔
آپ نے فرمایا:
جب سے میں مسلمان ہوا ہوں اور جو نماز بھی ادا کی ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ میرےگناہوں کا کفارہ بن جائے۔
(المستدرك علی الصیحین: 442/2، طبع دار الکتب العلمیة)
اس کے بعد انھوں نے مذکورہ واقعہ بیان کیا۔
اس موقف میں بھی حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ خوف کا مقام امید کے مقام سے بہر حال اعلیٰ اور افضل ہے۔
حضرت عمر ؓ کا یہ فرمانا کسر نفسی تواضع اور خوف الٰہی کی بنا پر تھا، ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل و انصاف ہماری تمام عمر نیک اعمال سے کہیں زیادہ وزنی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل حق پرست اور رعایا پردر حاکم پیدا ہی نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 318/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3915