(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: حدثني مالك، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن عبيد يعني ابن حنين، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر، فقال:" إن عبدا خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء , وبين ما عنده فاختار ما عنده" , فبكى ابو بكر، وقال: فديناك بآبائنا وامهاتنا فعجبنا له، وقال الناس: انظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عبد خيره الله بين ان يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو، يقول: فديناك بآبائنا وامهاتنا، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير وكان ابو بكر هو اعلمنا به، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من امن الناس علي في صحبته وماله ابا بكر ولو كنت متخذا خليلا من امتي لاتخذت ابا بكر إلا خلة الإسلام لا يبقين في المسجد خوخة إلا خوخة ابي بكر".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ حُنَيْنٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ , وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَهُ" , فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا فَعَجِبْنَا لَهُ، وَقَالَ النَّاسُ: انْظُرُوا إِلَى هَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَهُ اللَّهُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَهُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ وَهُوَ، يَقُولُ: فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْمُخَيَّرَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ أَعْلَمَنَا بِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ إِلَّا خُلَّةَ الْإِسْلَامِ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا، ان سے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابوالنضر نے، ان سے عبید یعنی ابن حنین نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، فرمایا ”اپنے ایک نیک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو وہ چاہے اسے اپنے لیے پسند کر لے یا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہے (آخرت میں) اسے پسند کر لے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے ہاں ملنے والی چیز کو پسند کر لیا۔“ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ (ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس رونے پر حیرت ہوئی، بعض لوگوں نے کہا اس بزرگ کو دیکھئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں اور جو اللہ کے پاس ہے اس میں سے کسی کے پسند کرنے کا اختیار دیا تھا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ان دو چیزوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ اس بات سے واقف تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی صحبت اور مال کے ذریعہ مجھ پر احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنا سکتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا البتہ اسلامی رشتہ ان کے ساتھ کافی ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ اب کھلا ہوا باقی نہ رکھا جائے سوائے ابوبکر کے گھر کی طرف کھلنے والے دروازے کے۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: Allah's Apostle sat on the pulpit and said, "Allah has given one of His Slaves the choice of receiving the splendor and luxury of the worldly life whatever he likes or to accept the good (of the Hereafter) which is with Allah. So he has chosen that good which is with Allah." On that Abu Bakr wept and said, "Our fathers and mothers be sacrificed for you." We became astonished at this. The people said, "Look at this old man! Allah's Apostle talks about a Slave of Allah to whom He has given the option to choose either the splendor of this worldly life or the good which is with Him, while he says. 'our fathers and mothers be sacrifice(i for you." But it was Allah's Apostle who had been given option, and Abu Bakr knew it better than we. Allah's Apostle added, "No doubt, I am indebted to Abu Bakr more than to anybody else regarding both his companionship and his wealth. And if I had to take a Khalil from my followers, I would certainly have taken Abu Bakr, but the fraternity of Islam is. sufficient. Let no door (i.e. Khoukha) of the Mosque remain open, except the door of Abu Bakr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 244
خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده بكى أبو بكر وقال فديناك بآبائنا وأمهاتنا فعجبنا له وقال الناس انظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا وبين ما عنده وهو
الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله بكى أبو بكر الصديق فقلت في نفسي ما يبكي هذا الشيخ إن يكن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله فكان رسول الله هو العبد وكان أبو بكر أعلمنا قال يا أبا بكر لا
الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ذلك العبد ما عند الله قال بكى أبو بكر فعجبنا لبكائه أن يخبر رسول الله عن عبد خير فكان رسول الله هو المخير وكان أبو بكر أعلمنا فقال رسول الله إن من أ
خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما عنده فاختار ما عنده فقال أبو بكر فديناك يا رسول الله بآبائنا وأمهاتنا قال فعجبنا فقال الناس انظروا إلى هذا الشيخ يخبر رسول الله عن عبد خيره الله بين أن يؤتيه من زهرة الدنيا ما شاء وبين ما ما شاء وبين
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3904
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ مسلمانوں نے جو مسجد بنوی کے ارد گرد رہتے تھے اپنے ا پنے گھروں میں ایک ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھول لی تھی تاکہ جلدی سے مسجد کی طرف چلے جا ئیں یا جب چاہیں آنحضرت ﷺ کی زیارت اپنے گھر ہی سے کر لیں آپ نے حکم دیا یہ کھڑکیاں سب بند کردی جائیں صرف ابو بکر ؓ کی کھڑکی قائم رہے۔ بعض نے اس حدیث کوحضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت اور افضلیت مطلقہ کی دلیل ٹھہرائی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3904
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3904
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ صحابہ کرام ؓ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے گھروں کے دریچے مسجد نبوی کی طرف کھولے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سب دریچوں کو بند کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت ابوبکر ؓ کے دریچے کو اس سے مستثنیٰ قراردیا تاکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے آپ کی امتیازی حیثیت برقراررہے۔ اس دریچے اور کھڑکی کا باقی رکھنا حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ 2۔ اس حدیث میں رفاقت سے مراد سفرہجرت ہے جس میں اور کوئی صحابی شریک نہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3904
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3660
´فضائل ابوبکر رضی الله عنہ پر ایک اور باب` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا: ”ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں“، تو اس نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں، اسے سنا تو ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے باپ دادا اور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ۱؎ ہمیں تعجب ہوا، لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی رنگینی کو اپنا لے یا اللہ کے پاس جو کچ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3660]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: ہمارے ماں باپ کی عمریں آپﷺ کو مل جائیں تاکہ آپﷺ کا سایہ ہم پر تادیر اور مزید قائم رہے۔
2؎: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تمام صحابہ پر فضیلت کی دلیل ہے۔ مسجد نبوی میں یہ دروازہ آج بھی موجود ہے، محراب کی دائیں جانب پہلا دروازہ باب السلام ہے اوردوسرا خوخۃ ابی بکر رضی اللہ عنہ
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3654
3654. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔“ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3654]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا اور آج تک مسجد نبوی میں یہ تاریخی جگہ محفوظ رکھی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3654
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:466
466. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا میں رہے یا جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کرے۔ تو اس نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔“ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ رونے لگے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ بوڑھا کس لیے روتا ہے؟بات تو صرف یہ ہے کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو دنیا یا آخرت دونوں میں سے جسے چاہے پسند کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس نے آخرت کو پسند کیا ہے۔ (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے)؟ مگر بعد میں یہ راز کھلا کہ بندے سے مراد خود رسول اللہ ﷺ تھے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہم سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ابوبکر تم مت روؤ، میں لوگوں میں سے کسی کے مال اور صحبت کا اتنا زیر بار نہیں جتنا ابوبکر کا ہوں۔ اگر میں اپنی امت سے کسی کو خلیل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:466]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر مسجد سےمتصل مکان کی کھڑکی مسجد کی طرف کھول دی جائے تاکہ مسجد میں آنے کی سہولت ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟مذکورہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم و فضل کے لیے یہ خصوصی اجازت ہے کہ وہ مسجد میں حاضری کی سہولت کے پیش نظر مکان کے عقبی جانب کوئی کھڑکی وغیرہ نکالیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اور اس کا اصل دروازہ مغربی جانب تھا، لیکن اس کے عقبی جانب مسجد نبوی میں آنے کے لیے ایک کھڑی تھی جس سے بوقت ضرورت مسجد میں آتے جاتے تھے۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اپنے اپنے مکانات سے مسجد نبوی کی جانب کھڑکیاں کھول رکھی تھیں۔ نبی ﷺ نے مرض وفات میں اللہ کے حکم سے ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کردینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ا بو بکر کی کھڑکی کے علاوہ تمام دروازے بند کردیے جائیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ انھیں خلافت کے زمانے میں نماز پڑھانے کے لیے آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ چنانچہ ابن حبان ؒ نے اس روایت کی بایں الفاظ تشریح کی ہے: یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے خلیفہ ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ آپ نے یہ کہہ کر کہ مسجد میں سے ابو بکر ؓ کے علاوہ تمام صحابہ کی کھڑکیاں بند کردی جائیں تمام لوگوں کی خلافت سے متعلق دلچسپی کو یکسر ختم کردیا۔ (فتح الباري: 19/7) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں طبع سلیم رکھنے والوں کے لیے اس روایت میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بالکل واضح استدلال ہے۔ متعدد احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی تو آپ نے اسے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا: اس نے عرض کیا: اگر میں دوبارہ آؤں اور آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو کس کے پاس جاؤں؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم مجھے نہ پاؤں تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنا۔ “(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي، صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3659) 3۔ مسجد نبوی کی طرف دروازہ باقی رکھنے کی فضیلت حضرت علی ؓ کے متعلق بھی منقول ہے چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسجد کے تمام دروازے بند کردیے جائیں، لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ بند نہ کیا جائے۔ “(مسند أحمد: 331/1) حضرت علی ؓ کے گھر کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلتا تھا۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ روافض نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی فضیلت سے معارضے کے لیے اس روایت کو وضع کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت سے متعلق یہ روایت متعدد طرق سے ثابت ہے اور کچھ روایات درجہ حسن کی ہیں اس لیے اسے موضوع قراردینا درست نہیں۔ البتہ ان کے مابین تعارض کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک وقت کی بات نہیں دوبار الگ الگ اوقات میں دروازے بند کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ حضرت علی ؓ کے دروازے کا کھلا رہنا بہت پہلے کی بات ہے اور اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے گھر کا دروازہ ہی ایک تھا اور وہ مسجد میں کھلتا تھا اس مجبوری کے پیش نظر جب پہلی بار دروازے بند کرائے تو حضرت علی ؓ کا دروازہ کھلا رہا دیگر دروازے بندے کردیے گئے۔ لیکن مسجد نبوی میں آتے وقت فاصلہ کم کرنے کے لیے کھڑکیاں باقی رکھی گئیں۔ پھر جب آپ وفات سے چند یوم پہلے مسجد میں تشریف لائے تو ان تمام کھڑکیوں کو بھی بند کردیا گیا صرف حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی کھڑکی کو کھلا رہنے کی اجازت دی گئی تاکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد نماز پڑھانے کی خدمت بجا لانے میں سہولت رہے اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کے متعلق بھی واضح ہدایت ہوجائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس تطبیق کو ابو بکر کلا بازی ؒ اور امام طحاوی ؒ کی طرف منسوب کر کے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 20/7) 4۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے علوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض وفات میں پیش آیا، چنانچہ آپ کی وفات سے چار دن پہلے جو جمعرات تھی اس کی صبح واقعہ قرطاس پیش آیا کہ آپ کچھ تحریر کرانا چاہتے تھے لیکن لوگوں کے باہمی اختلاف اور شور و شغب درست نہیں۔ ”اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا: پھر ظہر کے وقت جب بیماری میں کچھ کمی محسوس ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ پانی کی سات مشکیں میرے سر پر ڈالوشاید کچھ سکون ہواوربعض لوگوں کو کچھ وصیت کر سکوں۔ حکم کی تعمیل کی گئی تو قدرے سکون ہوا۔ پھر آپ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے ظہر کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد منبر پر فروکش ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا واقعہ قرطاس صبح کو پیش آیا اور اسی دن ظہر کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطبے میں وہی مضمون تھا جو آپ تحریر فرمانا چاہتے تھے۔ 5۔ خلت سے مراد تعلق ہے جو صرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر اور آپ کے درمیان یہ تعلق ممکن ہی نہیں، البتہ اسلامی اخوت اور دینی محبت کا اعلیٰ سے اعلیٰ جو درجہ ہو سکتا ہے وہ ابو بکر صدیق ؓ اور آپ کے درمیان قائم ہے ان کے برابر نہ کسی کی مودت ہے اور نہ اخوت ان الفاظ میں حضرت ابو بکرصدیق ؓ کی جو منقبت بیان ہوئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پوری امت میں ان کے درجے کا کوئی نہیں ہے۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ واضح رہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا یہ مکان مسجد نبوی سے متصل اور باب السلام اور باب الرحمة کے درمیان واقع تھا پھر آپ نے اس مکان کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت پر صرف کردی لیکن اس کے بعد بھی وہ مکان حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے مشہور رہا۔ اب وہاں مسجد نبوی کا ایک مستقل دروازہ ”باب ابی بکر“ کے نام سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس کھڑکی کی جگہ: (هذه خوخة أبي بكر(الصديق رضي الله عنه) لکھ دیا گیا ہے۔ نوٹ: ۔ ان دوں احادیث کے بقیہ فوائد "کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم "میں تحریر کیے جائیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 466
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3654
3654. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور جواللہ کے پاس ہے ان میں سے کسی ایک کا اختیار دیا تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔“ یہ سن کرحضرت ابوبکر ؓ رونے لگے۔ ہم نے ان کے رونے پر تعجب کیا کہ رسول اللہ ﷺ توایک بندے کے متعلق خبر دے رہے ہیں جسے اختیار دیا گیا ہے!بعدمیں پتہ چلا کہ جنھیں اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی۔ واقعی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اپنی رفاقت اور اپنے مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات ابو بکر کے ہیں۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن ان سے اسلامی اخوت اور دینی محبت ہے۔ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردیے جائیں مگر ابوبکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3654]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ مجھ پر کسی نے احسان نہیں کیا،انھوں نے اپنی جان نچھاور کی،اپنا مال قربان کیا اور اپنی لخت جگر اور نورنظر میرےنکاح میں دی۔ “(المعجم الکبیر للطبراني: 191/11) 2۔ واضح رہے کہ حدیث میں دروازے سے مراد ابوبکرصدیق ؓ کی کھڑکی ہے،جومسجد کی طرف کھلتی تھی اور اسے کھلا رہنے دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو ایک ممتاز مقام عطا فرمایا۔ آج بھی مسجد نبوی میں یہ تاریخی مقام دیکھا جاسکتا ہے جہاں (خوخة أبي بكر) لکھا ہوا ہے۔ 3۔ ایک حدیث میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کردینے کا حکم دیا لیکن حضرت علی ؓ کا دروازہ اپنے حال پر رہنے دیا۔ (مسند الإمام أحمد: 175/1) یہ حدیث مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضر ت علی ؓ کے دروازے سے مراد حقیقی دروازہ ہے اور حضرت ابوبکر ؓ کے دروازے سے مراد کھڑکی ہے جو مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ دراصل مسجد کے پاس رہنے والے لوگوں نے اپنی سہولت کے پیش نظر اپنے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھول لیے تھے جو بعد میں بند کردینے کا حکم دیا،صرف حضرت علی کا د روازہ کھلا رہنے دیا گیا کیونکہ ان کا دروازہ باہر نہیں کھلتا تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں مسجد کی طرف کھول لیں تو دوسری مرتبہ حکم امتناعی جاری ہوا کہ ان تمام کھڑکیوں کو بند کردیا جائے۔ البتہ ابوبکر ؓ کی کھڑکی کھلی رہے۔ 4۔ محدثین نے لکھا ہے کہ اس اقدام سے حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف نمایاں اشارہ تھا تاکہ انھیں خلافتی امور نمٹانے میں سہولت رہے۔ (فتح الباري: 20/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3654