(موقوف , مرفوع) وحدثني الاوزاعي، عن عطاء بن ابي رباح، قال: زرت عائشة مع عبيد بن عمير الليثي فسالناها عن الهجرة، فقالت:" لا هجرة اليوم كان المؤمنون يفر احدهم بدينه إلى الله تعالى وإلى رسوله صلى الله عليه وسلم مخافة ان يفتن عليه , فاما اليوم فقد اظهر الله الإسلام , واليوم يعبد ربه حيث شاء ولكن جهاد ونية".(موقوف , مرفوع) وَحَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: زُرْتُ عَائِشَةَ مَعَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ فَسَأَلْنَاهَا عَنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ:" لَا هِجْرَةَ الْيَوْمَ كَانَ الْمُؤْمِنُونَ يَفِرُّ أَحَدُهُمْ بِدِينِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخَافَةَ أَنْ يُفْتَنَ عَلَيْهِ , فَأَمَّا الْيَوْمَ فَقَدْ أَظْهَرَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ , وَالْيَوْمَ يَعْبُدُ رَبَّهُ حَيْثُ شَاءَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ".
مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ عبید بن عمیر لیثی کے ساتھ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہم نے ان سے فتح مکہ کے بعد ہجرت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عہد کر کے آتا تھا۔ اس خطرہ کی وجہ سے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑ جائے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا ہے اور آج (سر زمین عرب میں) انسان جہاں بھی چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے، البتہ جہاد اور نیت ثواب باقی ہے۔
Narrated 'Ata bin Abi Rabah: `Ubaid bin `Umar Al-Laithi and I visited Aisha and asked her about the Hijra (i.e. migration), and she said, "Today there is no (Hijrah) emigration. A believer used to run away with his religion to Allah and His Apostle lest he should be put to trial because of his religion. Today Allah has made Islam triumphant, and today a believer can worship his Lord wherever he likes. But the deeds that are still rewardable (in place of emigration) are Jihad and good intentions." (See Hadith No. 42 Vol. 4).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 240
لا هجرة اليوم كان المؤمنون يفر أحدهم بدينه إلى الله وإلى رسوله مخافة أن يفتن عليه فأما اليوم فقد أظهر الله الإسلام واليوم يعبد ربه حيث شاء لكن جهاد ونية
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3900
حدیث حاشیہ: فتح مکہ کے بعدمدینے کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اب ہجرت کی مشروعیت ختم ہوچکی ہے کیونکہ دارالکفر سے دارالسلام کی طرف ہجرت کرنا اب بھی واجب ہے بشرط یہ کہ دین میں خلل کا اندیشہ ہو۔ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ نہ ہوسکے ایسے ملک سے ہجرت کرنا واجب ہے بصورت دیگر واجب نہیں۔ اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں اپنا دین ظاہر کرسکتاہے اوربلاروک ٹوک اللہ کی عبادت کرسکتا ہے تو اس کا حکم دارالسلام جیسا ہوگا بلکہ وہاں ٹھہرنا ہجرت سے افضل ہے کیونکہ وہاں قیام رکھنے سے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ تبلیغ اسلام کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوں گے، اس لیے اس قسم کی احادیث کو مقامی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3900
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4312
4312. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ سے ملنے گیا تو انہوں نے آپ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: آج ہجرت باقی نہیں رہی کیونکہ پہلے آدمی اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتا تھا، مبادا دین کی وجہ سے کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔ آج فتح مکہ کے بعد اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا ہے، اس لیے مومن جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے لیکن جہاد اور ہجرت (کی نیت کا ثواب) باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4312]
حدیث حاشیہ: یہ سوال فتح مکہ کے بعد مدینہ شریف ہی کی طرف ہجرت کر نے سے متعلق تھا جس کا جواب وہ دیا گیا جو روایت میں مذکور ہے، باقی عام حیثیت سے حالات کے تحت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر نا بوقت ضرورت اب بھی جائز ہے۔ بشرطیکہ ایسے حالات پائے جو اس کیلئے ضروری ہیں۔ روایات بالا میں کسی نہ کسی پہلو سے فتح مکہ کا ذکر ہو ا ہے، اسی لیے ان کو اس باب کے تحت لایا گیاہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4312
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3080
3080. حضرت عطاء سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ وہ شبیر پہاڑ کے دامن میں تشریف فرماتھیں۔ انھوں نے ہمیں فرمایا: جب سےاللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو مکہ مکرمہ پر فتح دی ہے، اس وقت سے ہجرت کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3080]
حدیث حاشیہ: 1۔ ثبیر،مزدلفہ کے نزدیک ایک بڑا پہاڑ ہے جو منیٰ کی طرف جانے والے کے بائیں طرف پڑتا ہے۔ اس حدیث میں بھی ایک خاص ہجرت مراد ہے جو مکہ فتح ہونے کے بعد ختم ہوچکی ہے،البتہ طلب علم اورفتنہ وفساد سے محفوظ رہنے کی نیت سے اپنا مالوف وطن چھوڑنا اور اس سے ہجرت کرجانا اب بھی باقی ہے اور اس قسم کی ہجرت ہمیشہ باقی رہے گی۔ 2۔ بہرحال اب بھی جہاں کہیں دارالحرب ہے اگر کوئی شخص اپنے دین کو بچانے کی نیت سے ہجرت کرنے پر قادر ہے تو اس پر ہجرت واجب ہے تاکہ ہرقسم کے خطرات سے محفوظ ہوجائے اور اگرعاجز ہوتو کراہت کے ساتھ وہاں اقامت رکھی جاسکتی ہے لیکن اگر مصائب و آلام جھیل کر نکل جائے تو اسے اللہ کے ہاں بہت اجرثواب ملے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3080
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4312
4312. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں عبید بن عمیر کے ہمراہ حضرت عائشہ ؓ سے ملنے گیا تو انہوں نے آپ سے ہجرت کے بارے میں پوچھا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: آج ہجرت باقی نہیں رہی کیونکہ پہلے آدمی اپنے دین کو بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بھاگتا تھا، مبادا دین کی وجہ سے کسی فتنے میں مبتلا ہو جائے۔ آج فتح مکہ کے بعد اللہ تعالٰی نے اسلام کو غلبہ دیا ہے، اس لیے مومن جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے لیکن جہاد اور ہجرت (کی نیت کا ثواب) باقی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4312]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے لیے مکہ مکرمہ فتح کردیا ہے اس وقت سے یہ ہجرت ختم ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 3080۔ ) یعنی شروع اسلام میں مسلمان کمزور تھے انھیں اسلام لانے کی وجہ سے تکلیفیں پہنچائی جاتیں، لوگ فتنے کے ڈر سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کرتے تھے اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کردیا ہے اور اسلام مغلوب ہونے کی بجائے غالب ہے تو مذکورہ خطرات ختم ہو چکے ہیں، اس لیے اب کافروں سے اللہ کی راہ میں جہاد اور ہجرت کی نیت کا ثواب بدستور قائم ہے۔ 2۔ جہاد بالفعل یا جہاد بالقوہ ہو لیکن اسے صرف جنگ و قتال میں بند کرنا صحیح نہیں بلکہ جہاد بالمال جہاد باللسان اور جہاد بالقلم سب کو شامل ہے جہاد عملاً نہ ہو تو بھی اس کی نیت ضرور ہونی چاہیے لیکن نیت کے یہ معنی نہیں کہ ارادہ کر کے انسان اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور اس کے لیے تیاری نہ کرے نیت کا معیار ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾(الأنفال: 60/8) کو قراردیا گیا ہے۔ اس کی تیاری ضرور ہونی چاہیے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4312