(مرفوع) حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا عبد العزيز، عن انس رضي الله عنه، قال:" لما كان يوم احد انهزم الناس عن النبي صلى الله عليه وسلم وابو طلحة بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم مجوب به عليه بحجفة له , وكان ابو طلحة رجلا راميا شديد القد يكسر يومئذ قوسين او ثلاثا , وكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل، فيقول: انشرها لابي طلحة , فاشرف النبي صلى الله عليه وسلم ينظر إلى القوم، فيقول ابو طلحة: يا نبي الله بابي انت وامي لا تشرف يصيبك سهم من سهام القوم نحري دون نحرك، ولقد رايت عائشة بنت ابي بكر , وام سليم وإنهما لمشمرتان ارى خدم سوقهما تنقزان القرب على متونهما تفرغانه في افواه القوم، ثم ترجعان فتملآنها , ثم تجيئان فتفرغانه في افواه القوم , ولقد وقع السيف من يدي ابي طلحة , إما مرتين , وإما ثلاثا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ بِهِ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ لَهُ , وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلًا رَامِيًا شَدِيدَ الْقِدِّ يَكْسِرُ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا , وَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ، فَيَقُولُ: انْشُرْهَا لِأَبِي طَلْحَةَ , فَأَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَا تُشْرِفْ يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ , وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تُنْقِزَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا , ثُمَّ تَجِيئَانِ فَتُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ , وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَيْ أَبِي طَلْحَةَ , إِمَّا مَرَّتَيْنِ , وَإِمَّا ثَلَاثًا".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقعہ پر جب صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے اِدھر اُدھر چلنے لگے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اس وقت اپنی ایک ڈھال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہے تھے۔ ابوطلحہ بڑے تیرانداز تھے اور خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں انہوں نے توڑ دی تھیں۔ اس وقت اگر کوئی مسلمان ترکش لیے ہوئے گزرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اس کے تیر ابوطلحہ کو دے دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے: یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اچک کر ملاحظہ نہ فرمائیں، کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔ میرا سینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کی ڈھال بنا رہا اور میں نے عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا (ابوطلحہ کی بیوی) کو دیکھا کہ اپنا ازار اٹھائے ہوئے (غازیوں کی مدد میں) بڑی تیزی کے ساتھ مشغول تھیں۔ (اس خدمت میں ان کے انہماک و استغراق کی وجہ سے انہیں کپڑوں تک کا ہوش نہ تھا یہاں تک کہ) میں ان کی پنڈلیوں کے زیور دیکھ سکتا تھا۔ انتہائی جلدی کے ساتھ مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لیے جاتی تھیں اور مسلمانوں کو پلا کر واپس آتی تھیں اور پھر انہیں بھر کر لے جاتیں اور ان کا پانی مسلمانوں کو پلاتیں اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اس دن دو یا تین مرتبہ تلوار چھوٹ کر گر پڑی تھی۔
Narrated Anas: On the day of the battle of Uhud, the people ran away, leaving the Prophet , but Abu- Talha was shielding the Prophet with his shield in front of him. Abu Talha was a strong, experienced archer who used to keep his arrow bow strong and well stretched. On that day he broke two or three arrow bows. If any man passed by carrying a quiver full of arrows, the Prophet would say to him, "Empty it in front of Abu Talha." When the Prophet stated looking at the enemy by raising his head, Abu Talha said, "O Allah's Prophet! Let my parents be sacrificed for your sake! Please don't raise your head and make it visible, lest an arrow of the enemy should hit you. Let my neck and chest be wounded instead of yours." (On that day) I saw `Aisha, the daughter of Abu Bakr and Um Sulaim both lifting their dresses up so that I was able to see the ornaments of their legs, and they were carrying the water skins of their arms to pour the water into the mouths of the thirsty people and then go back and fill them and come to pour the water into the mouths of the people again. (On that day) Abu Talha's sword fell from his hand twice or thrice.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 156
لما كان يوم أحد انهزم الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب به عليه بحجفة له وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد القد يكسر يومئذ قوسين أو ثلاثا وكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل فيقول انشرها لأبي طلحة
لما كان يوم أحد انهزم الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب عليه بحجفة له وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع كسر يومئذ قوسين أو ثلاثا وكان الرجل يمر معه بجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة
لما كان يوم أحد انهزم ناس من الناس عن النبي وأبو طلحة بين يدي النبي مجوب عليه بحجفة قال وكان أبو طلحة رجلا راميا شديد النزع وكسر يومئذ قوسين أو ثلاثا قال فكان الرجل يمر معه الجعبة من النبل فيقول انثرها لأبي طلحة قا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3811
حدیث حاشیہ: یہ حضرت ابوطلحہ ؓ مشہور انصاری مجاہد ہیں جنہوں نے جنگ احد میں اس پامردی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ قیامت تک کے لیے ان کی یہ خدمت تاریخ اسلام میں فخریہ یادر کھی جائے گی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ جنگ وجہاد کے موقعہ پر مستورات کی خدمات بڑی اہمیت رکھتی ہیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور کھانے کے لیے مجاہدین کی خبر لینا یہ خواتین اسلام کے مجاہدانہ کارنامے اوراق تاریخ پر سنہری حرفوں سے لکھے جائیں گے، مگر خواتین اسلام پورے حجاب شرعی کے ساتھ یہ خدمات انجام دیا کرتی تھیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3811
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے غزوہ احد کے موقع پر بڑی بہادری اور پامردی سے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا اورآپ کی خدمت بجالائے۔ قیامت تک یہ خدمات یادرکھی جائیں گی۔ 2۔ اسلامی غزوات میں خواتین اسلام کی خدمات بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ چونکہ یہ موقع جنگ اور پریشانی کا تھا، ایسے حالات میں اگر عورت کی پنڈلیاں کھل جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں، نیز اس وقت ابھی پردے کے احکام بھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ خواتین اسلام ایسے حالات میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں اور پینے کے لیے پانی کا اہتمام کرتی تھیں، یہ کارنامے تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف سے ثبت ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3811
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4683
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن کچھ لوگوں نے شکست کھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال سے اوٹ کیے ہوئے تھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بہت سخت تیر انداز تھے۔ اور انہوں نے جنگ اُحد میں دو یا تین کمانیں توڑیں، کوئی آدمی گزرتا جس کے پاس تیروں کا ترکش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے، اسے ابوطلحہ کے آگے پھیلا دو اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4683]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مُجَوِّب عَلَيه: آپ کو اوٹ کیے ہوئے تھے، لوگوں سے بچائے ہوئے تھے۔ (2) شَدِيدُ النزع: زبردست تیز انداز تھے، بڑے زور سے تیر پھینکتے تھے۔ (3) الجَعبه: ترکش، جس میں تیر ہوتے ہیں۔ (4) انثُرها: ترکش سے تیر ابو طلحہ کے سامنے نکال کر رکھ دیجئے، تاکہ وہ ان کو دشمن پر چلا سکیں۔ (5) نحَرِي دُونَ نَحرِكَ: میرا سینہ آپ کے لیے ڈھال ہے، میں اپنے آپ کو آپ پر قربان کرتا ہوں، خدم، خدمة کی جمع ہے، (6) خلخال: پازیب۔ (7) سُوق: پنڈلی۔ فوائد ومسائل: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ کے پازیب دیکھنے کا واقعہ جنگ احد کا ہے، اس وقت تک حجاب کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے، اس لیے عورتوں کو دیکھنا حرام نہیں تھا، نیز حضرت انس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے، آپ کے گھر آمدورفت ہر وقت رہتی تھی اور ام سلیم ان کی والدہ تھیں، اس لیے انہیں ان پر نظر جمانے کی ضرورت نہ تھی، اچانک ان کے پازیب پر نظر پڑ گئی، علاوہ ازیں حالت امن کو حالت جنگ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4683
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2902
2902. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ اپنا اور نبی کریم ﷺ کا تحفظ ایک ہی ڈھال سے کررہے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ ماہر تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر مارتے تو نبی کریم ﷺ سر مبارک اٹھا کر تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2902]
حدیث حاشیہ: ایک ہی ڈھال سے دو مجاہدین کے بچاؤ کرنے کا جواز ثابت ہوا جیسا کہ حضرت ابو طلحہؓ کا عمل ہوا۔ آنحضرتﷺ ان کی نشانہ بازی کی کامیابی معلوم کرنے کے لئے نظر اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرا ہے‘ ان کی ہمت افزائی کے لئے بھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2902
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4064
4064. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب غزوہ اُحد میں لوگوں نے نبی ﷺ کو تنہا چھوڑ دیا تو حضرت ابو طلحہ ؓ اپنی ڈھال لے کر خود نبی ﷺ کے اوپر ڈھال بنے ہوئے تھے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ زبردست تیر انداز تھے۔ انہوں نے اس روز دو یا تین کمانیں توڑی تھیں۔ اس دوران میں جو آدمی بھی آپ کے پاس سے تیروں کا ترکش لے کر گزرتا تو آپ اس سے کہتے: ”ان تیروں کو طلحہ ؓ کے پاس رکھ دو۔“نبی ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا کر کافروں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہ کہتے: میرے باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر مبارک نہ اٹھائیں، مبادا کفار کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لیے موجود ہے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو بایں حالت دیکھا کہ وہ کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا وہ اپنی پشتوں پر مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4064]
حدیث حاشیہ: میدان جنگ میں خواتین اسلام کے کارنامے بھی رہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شدید ضرورت کے وقت خواتین اسلام کا گھروں سے باہرنکل کر کام کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ شرعی پردہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ جنگ میں ان کی پنڈلیوں کا نظر آنا یہ بدرجہ مجبوری تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4064
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2902
2902. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ اپنا اور نبی کریم ﷺ کا تحفظ ایک ہی ڈھال سے کررہے تھے۔ اور حضرت ابو طلحہ ؓ ماہر تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر مارتے تو نبی کریم ﷺ سر مبارک اٹھا کر تیر گرنے کی جگہ دیکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2902]
حدیث حاشیہ: 1۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جنگی ہتھیاروں ڈھال وغیرہ کا استعمال توکل کے منافی ہے۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنا توکل کے خلا ف نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ان آلات کو استعمال کیا گیا۔ اگرچہ احتیاط کرنا تقدیر کو رد نہیں کرسکتا، تاہم انسان کی طبیعت میں وساوس راہ پاتے ہیں اور احتیاط کرنے سے وسوسے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے ایک ہی ڈھال سے دو مجاہدین کا بچاؤ کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2902
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4064
4064. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب غزوہ اُحد میں لوگوں نے نبی ﷺ کو تنہا چھوڑ دیا تو حضرت ابو طلحہ ؓ اپنی ڈھال لے کر خود نبی ﷺ کے اوپر ڈھال بنے ہوئے تھے۔ حضرت ابوطلحہ ؓ زبردست تیر انداز تھے۔ انہوں نے اس روز دو یا تین کمانیں توڑی تھیں۔ اس دوران میں جو آدمی بھی آپ کے پاس سے تیروں کا ترکش لے کر گزرتا تو آپ اس سے کہتے: ”ان تیروں کو طلحہ ؓ کے پاس رکھ دو۔“نبی ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا کر کافروں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہ کہتے: میرے باپ آپ پر قربان ہوں! آپ سر مبارک نہ اٹھائیں، مبادا کفار کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے آگے قربانی کے لیے موجود ہے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیم ؓ کو بایں حالت دیکھا کہ وہ کپڑے اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں ان کے پازیب دیکھ رہا تھا وہ اپنی پشتوں پر مشکیں بھر بھر کر لا رہی تھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4064]
حدیث حاشیہ: 1۔ گزشتہ حدیث میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ کا ذکر ہوا تھا اور وہ مہاجرین میں سے ہیں۔ اس حدیث میں حضرت طلحہ کا ذکر خیر ہے ان کا نام زید بن سہل ہے۔ حضرت انس ؓ کے سوتیلے باپ اور حضرت ام سلیم ؓ کے شوہر نامدار ہیں۔ 2۔ حدیث کے آخر میں ہے کہ غزوہ احد میں ان کے ہاتھ سے دو تین مرتبہ تلوار گری۔ اس روایت میں تلوار گرنے کا سبب ذکر نہیں ہوا لیکن صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عین جنگ کے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر اونگھ ڈال دی تاکہ انھیں زخموں سے آرام ہو۔ اس اونگھ کی حالت میں ان کے ہاتھوں سے تلواریں گریں۔ ان حضرات میں حضرت ابو طلحہ ؓ بھی تھے جن کے ہاتھ سے تلوار گری۔ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4683۔ ) حضرت ابو طلحہ ؓ کا اپنا بیان ہے کہ مجھ پر اونگھ طاری ہو گئی اور کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے تلوار گری۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4088۔ ) مزید تفصیل آگے آئے گی۔ باذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4064