(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا سليمان، عن يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم , فنخير ابا بكر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضي الله عنهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ".
ہم سے عبدالعزیزبن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔
Narrated Ibn `Umar: We used to compare the people as to who was better during the lifetime of Allah's Apostle . We used to regard Abu Bakr as the best, then `Umar, and then `Uthman .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 7
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3655
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ نے مذہب جمہور کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمام صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فضیلت حاصل ہے۔ اکثر سلف کا یہی قول ہے اور خلف میں سے بھی اکثر نے یہی کہا ہے۔ بعض محققین ایسا بھی کہتے ہیں کہ خلفاء اربعہ کو باہم ایک دوسرے پر فضیلت دینے میں کوئی نص قطعی نہیں ہے، لہذا یہ چاروں ہی افضل ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تمام صحابہ میں یہ چاروں افضل ہیں اور ان کی خلافت جس ترتیب کے ساتھ منعقد ہوئی اسی ترتیب سے وہ حق اور صحیح ہیں اور ان میں باہم فضیلت اسی ترتیب سے کی جاسکتی ہے۔ بہر حال جمہور کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے۔ باہم فضیلت اسی ترتیب سے کی جاسکتی ہے۔ بہر حال جمہور کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3655
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3655
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کہاکرتے تھے: اس امت میں سب سے افضل حضرت ابکر ؓ۔ پھر حضرت عمر ؓ۔ پھرحضرت عثمان ؓ ہیں۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4628) طبرانی میں اس قدر اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے سنتے مگر انکار نہ کرتے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 221/12۔ حدیث: 13132) امام بخاری ؒ نے عنوان میں جمہور کی تائید کی ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں حضرت ابوبکر ؓ کو برتری اورفضیلت حاصل ہے،البتہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ خلفائے اربعہ میں ایک کو دوسرے پر برتری دینے کے متعلق کوئی قطعی نص نہیں ہے،لہذا یہ چاروں ہی افضل ہیں۔ لیکن مذکورہ حدیث کے پیش نظر یہ موقف مرجوح ہے اورجمہور کا مذہب ہی راجح ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ کا اس امر پر اجماع ہے کہ امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر ؒ،پھر عمر ؒ۔ پھر عثمان ؒ۔ اور پھر حضرت علی ؒ کا درجہ ہے۔ (فتح الباري: 22/7) 2۔ عنوان میں امام بخاری ؒ نے لفظ بَعد استعمال کیا ہے۔ جو بُعد مرتبہ ومقام ار بعد مکان و زمان دونوں کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اس مقام پر پہلے معنی پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ اور مقام کے بعدحضرت ابوبکر ؓ کا درجہ ہے۔ اس سے مکان وزمان کا بُعد مراد نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں ان کے درمیان مقام ومرتبے کا فرق قائم تھا۔ (عمدة القاري: 391/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3655
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3698
3698. حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر!میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان ؓ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔)پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں نے فرمایا: ہاں(جانتا ہوں۔) تب اس شخص نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس پر حضرت عبد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:3698]
حدیث حاشیہ: 1۔ سائل اہل مصر سے تھا اس کا مقصد حضرت عثمان ؓ پر اعتراضات کرنا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کے کافی شافی جوابات دیے۔ اس سے حضرت عثمان کی فضیلت واضح ہوتی ہے کہ غزوہ احد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ انھیں معاف کردیا اور بخش دیا۔ جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجود بھی انھیں حاضر ہونے والوں کا سا حصہ دیا اور ان جیسا ثواب حاصل ہوا جو کسی اور غائب ہونے والے کو نصیب نہ ہوا۔ بیعت رضوان میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ ہے“ یہ وہ سعادت ہے جو اور کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ 2۔ مصر سے آنے والا شخص حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا اوقر تعجب کے باعث اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے تین سوالات کیے تھے۔ جب انھوں نے ان سوالات کی تصدیق کی تو خوشی سے اس نے اللہ أکبرکانعرہ بلند کیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے تینوں سوالوں کا تفصیل سے جواب دے کر اسے کہا: اب جاؤ اپنا عقیدہ صحیح کرو اور غلط پروپیگنڈا بند کردو۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حولاے سے لکھا ہے ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے تو حضرت عثمان ؓ نے خود ان کو وہی جوابات دیے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اعتراض کرنے والے کو دیے۔ (فتح الباري: 75/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3698