(مرفوع) ولكن سمعته، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: الخير معقود بنواصي الخيل إلى يوم القيامة، قال: وقد رايت في داره سبعين فرسا، قال سفيان: يشتري له شاة كانها اضحية".(مرفوع) وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الْخَيْرُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ: وَقَدْ رَأَيْتُ فِي دَارِهِ سَبْعِينَ فَرَسًا، قَالَ سُفْيَانُ: يَشْتَرِي لَهُ شَاةً كَأَنَّهَا أُضْحِيَّةٌ".
البتہ یہ دوسری حدیث خود میں نے عروہ رضی اللہ عنہ سے سنی ہے، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر اور بھلائی گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ قیامت تک کے لیے بندھی ہوئی ہے۔ شبیب نے کہا کہ میں نے عروہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ستر گھوڑے دیکھے۔ سفیان نے کہا کہ عروہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بکری خریدی تھی۔ شاید وہ قربانی کے لیے ہو گی۔
(In another narration) `Urwa said, "I heard Allah's Apostle saying, "There is always goodness in horses till the Day of Resurrection." (The subnarrator added, "I saw 70 horses in `Urwa's house.') (Sufyan said, "The Prophet asked `Urwa to buy a sheep for him as a sacrifice.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 836
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3643
حدیث حاشیہ: یہاں یہ اعتراض ہواہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کو عروہ کی کونسی حدیث مقصود ہے اگر گھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بے شک موصول ہے مگر اس کو باب سے مناسبت نہیں ہے اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو وہ باب کے موافق ہے کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ یعنی دعا کا قبول ہونا مذکور ہے مگر وہ موصول نہیں ہے، شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔ جواب یہ ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے۔ وہ سب جھوٹ بولیں، یہ نہیں ہوسکتا تو حدیث موصول اور صحیح ہوگئی۔ گھوڑوں والی حدیث ميں ایک پیش گوئی ہے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔ یہ بھی اس طرح باب سے متعلق ہے کہ اس میں آپ کی صداقت کی دلیل موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3643
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3643
حدیث حاشیہ: 1۔ اس مقام پر یہ اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ کو حضرت عروہ بارقی ؓ کی کون سی حدیث مقصود ہے؟ اگرگھوڑوں کی حدیث مقصود ہے تو وہ بلاشبہ موصول ہے مگر اس کو عنوان سے کوئی مناسبت نہیں اور اگر بکری والی حدیث مقصود ہے تو عنوان کے مطابق تو ہے مگر وہ موصول نہیں کیونکہ شبیب کے قبیلے والے مجہول ہیں۔ اس کاجواب اس طرح دیا گیا ہے کہ قبیلے والے متعدد اشخاص تھے وہ سب جھوٹ بولیں یہ نہیں ہوسکتا،نیز جب یہ معلوم ہے کہ شبیب صرف عادل راوی سے روایت کرتا ہے تو یقین کیا جائے گا کہ انھوں نے قبیلے کے عادل راویوں ہی سے روایت لی ہے۔ بہرحال یہ روایت متصل ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے ایک معجزے کا بیان ہے کہ عروہ باقی کے لیے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ اگر مٹی بھی خریدتے تو وہ بھی سونے کے بھاؤ فروخت ہوتی تھی اور انھیں اس سے کافی نفع ہوتا تھا۔ یہ نبوت کی دلیل ہے۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عروہ بارقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سودے کو نہ صرف برقراررکھا بلکہ اسے پسند فرمایا اور دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس کی خریدوفروخت کے معاملات میں برکت عطا فرمائے۔ 3۔ معلوم ہوا کہ منافع کی شرح میں کوئی تعین نہیں ہے۔ اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نےقیمت خرید کے برابر نفع وصول کیا۔ واللہ أعلم۔ 4۔ گھوڑوں والی حدیث بھی عنوان کے عین مطابق ہے کہ آج جدید اسلحے کی فراوانی کے باوجود بھی فوج میں گھوڑے کی اہمیت باقی ہے۔ بہرحال دونوں احادیث متصل ہیں اور عنوان کے مطابق ہیں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3643
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2852
´مسلمانوں کا امیر عادل ہو یا ظالم اس کی قیادت میں جہاد ہمیشہ ہوتا رہے گا` «. . . حَدَّثَنَا عُرْوَةُ الْبَارِقِيُّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ . . .» ”. . . عروہ بارقی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خیر و برکت قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ بندھی رہے گی یعنی آخرت میں ثواب اور دنیا میں مال غنیمت ملتا رہے گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2852]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2852 کا باب: «بَابُ الْجِهَادُ مَاضٍ مَعَ الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے امیر فاجر یا نیک پر استدلال فرمایا اور دلیل کے طور پر جو حدیث پیش فرمائی اس کا تعلق گھوڑوں کے ساتھ ہے، بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «. . . . . ولم يقيد ذالك بما إذا كان الإمام عادلا فدل على أن لا فرق فى حصول هذا الفضل بين أن يكون الغذو مع الإمام العادل أو الجائر.»[فتح الباري، ج 6، ص: 70] ”. . . . . اس وقت کے ساتھ اسے قید نہیں کیا جب کہ امام عادل ہو، یعنی اس فضیلت کا حصول امام کے عادل ہونے کے ساتھ خاص نہیں ہے، پس دلالت ہے اس حدیث میں کہ نہیں ہے فرق (اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے) چاہے امام عادل ہو یا ظالم۔“ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قول سے حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت قائم ہو جاتی ہے کہ جب تک گھوڑے ہوں گے اس پر جہاد ہوتا رہے گا، اور ان گھوڑوں کی پیشانیوں پر برکت ہو گی قیامت تک، یعنی قیامت تک جہاد جاری رہے گا، اور یہ عین ممکن ہے کہ قیامت تک کئی ایسے دور ہوں گے جو اچھے بھی ہوں گے اور برے بھی، اور ان ادوار میں امام عادل بھی ہو گا اور ظالم بھی۔ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 214] علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «أنه وقع فى رواية أبى الحسن القابسي فى لفظ الترجمة ”الجهاد ماض على البر والفاجر“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 71] مقصد ترجمۃ الباب کا یہ ہے کہ جہاد ہر شخص پر قیامت تک کے لیے واجب اور ضروری ہے، خواہ نیک ہو یا فاجر۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوالحسن القابسی کی روایت میں ترجمۃ الباب کے الفاظ یوں وارد ہوئے ہیں: «الجهاد ماض على البر و الفاجر.»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3607
´گھوڑے کی پیشانی کے بال گوندھنے کا بیان۔` عروہ بن ابی الجعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت تک گھوڑے کی پیشانی کے ساتھ خیر باندھ دیا گیا ہے (اور خیر سے مراد کیا ہے؟) ثواب اور مال غنیمت۔“[سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3607]
اردو حاشہ: گھوڑوں کا ذکر خصوصاً‘ اس لیے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور مبارک میں گھوڑے جہاد کے لیے انتہائی مفید بھی تھے اور ناگزیر بھی اور اب بھی ان کی افادیت سے انکار نہیں۔ آپ کا مقصد مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ہر وقت تیار رہنے کی ترغیب دلانا ہے۔ اب گھوڑوں کے علاوہ جدید جنگی اسلحہ اور ہتھیاروں کی تیاری وفراہمی ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3607
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1694
´گھوڑوں کی فضیلت کا بیان۔` عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر (بھلائی) بندھی ہوئی ہے، خیر سے مراد اجر اور غنیمت ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1694]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ وہ گھوڑے ہیں جو جہاد کے لیے استعمال یا جہاد کے لیے تیار کیے جارہے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1694
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4850
حضرت عروہ بارقی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر گھوڑوں کی پیشانیوں میں بندھی ہوئی ہے۔“ آپﷺ سے سوال کیا گیا، اے اللہ کے رسولﷺ! یہ کیسے؟ آپﷺ نے فرمایا: ”قیامت تک اجر و غنیمت ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4850]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے، جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور جدید ترین جنگی سواریوں کے باوجود گھوڑوں کی ضرورت برقرار رہے گی، جیسا کہ آج تک پہاڑوں اور جنگلوں میں یہ کام دے رہے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4850
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2850
2850. حضرت عروہ بن جعد ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیرو برکت وابستہ ہے۔“ سلیمان نے شعبہ سے انھوں نےعروہ بن ابو جعد سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ مسدد نے ہشیم سے، انھوں نے حصین سے، انھوں نے شعبی سے، انھوں نے عروہ بن ابو جعد سے روایت کرنے میں سلمان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2850]
حدیث حاشیہ: سعد نے بھی ابی الجعد کہا۔ ابن مدینی نے بھی اسی کو ٹھیک کہا ہے اور ابن ابی حاتم نے کہا کہ ابو الجعد کا نام سعد تھا۔ سلیمان کی روایت ابو نعیم کے مستخرج میں اور مسدد کی روایت ان کے مسند میں موصول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2850
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2852
2852. حضرت عروہ بارقی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیروابستہ ہے جن کے باعث ثواب بھی ملتا ہے اور غنیمت بھی حاصل ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2852]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ گھوڑے میں خیر وبرکت کے متعلق حدیث آئی ہے وہ اس کے آلہ جہاد ہونے کی وجہ سے ہے اور جب قیامت تک اس میں خیر و برکت قائم رہے گی تو اس سے نکلا کہ جہاد کا حکم بھی قیامت تک باقی رہے گا اور چونکہ قیامت تک آنے والا دور ہر اچھا اور برا دونوں ہوگا اس لئے مسلمانوں کے امراء بھی اسلامی شریعت کے پوری طرح پابند ہوں گے اور کبھی ایسے نہیں ہوں گے لیکن جہاد کا سلسلہ کبھی بند نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ اعلاء کلمۃ اللہ اور دنیا و آخرت میں سربلندی کا ذریعہ ہے۔ اس لئے اسلامی مفاد کے پیش نظر ظالم حکمرانوں کی قیادت میں بھی جہاد کیا جاتا رہے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2852
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3119
3119. حضرت عروہ بارقی ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک کے لیے خیروبرکت، یعنی اجروغنیمت کو باندھ دیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3119]
حدیث حاشیہ: اشارہ یہ ہے کہ جہاد میں شریک ہونے والوں کو إن شاءاللہ مال غنیمت ملے گا۔ اس کا مطلب یہ کہ غنیمت کا مستحق ہر شخص نہیں ہے۔ گویا آیت میں جو اجمال تھا اس کی تفصیل و وضاحت سنت نے کردی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3119
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2852
2852. حضرت عروہ بارقی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ” گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیروابستہ ہے جن کے باعث ثواب بھی ملتا ہے اور غنیمت بھی حاصل ہوتی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2852]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے خیروبرکت کو قیامت تک کے لیے گھوڑوں کی پیشانیوں سے وابستہ قراردیا ہے،پھر اس ضمن میں اجروغنیمت کابھی حوالہ دیاہے جو جہاد کا نتیجہ اور اس کی برکات ہیں۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاد بھی قیامت تک جاری رہےگا۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت تک آنے والے سب حکمران نیکوکار نہیں ہوں گے بلکہ ان میں بدکار بھی ہوں گے تو جہاد کا ہرنیکوکار اور سیاہ کارحکمران کے ہمراہ جائز ہونا ثابت ہوا۔ 3۔ چونکہ یہ دونوں احادیث امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے عنوان میں ان کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ الغرض حکمران عادل ہو یا ظالم،نیکوکار ہو یا بدکار،جہاد ہرحکمران کے دور میں درست اور جاری رہے گا کیونکہ یہ اللہ کے دین کے غلبے اور دنیا و آخرت میں سربلندی کا ذریعہ ہے اور اشاعت اسلام کا مفاد بھی اسی سے وابستہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2852
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3119
3119. حضرت عروہ بارقی ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ” گھوڑوں کی پیشانیوں سے قیامت تک کے لیے خیروبرکت، یعنی اجروغنیمت کو باندھ دیا گیا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3119]
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال کردیاہے۔ اس سے پہلے کسی اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا، چنانچہ اس وقت مال غنیمت میدان جنگ میں جمع کردیا جاتا اورآسمان سےآگ آتی اور اسے جلاکر راکھ کردیتی، لیکن اس اُمت کے لیے غنیمت کا مال حلال قراردیا گیا ہے۔ 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ میدان جنگ میں شریک ہونے والے گھوڑے باعث برکت ہیں کہ ان کی پیشانیوں سے مال غنیمت باندھ دیا گیا ہے جو مجاہدین کے لیے حلال ہے۔ اس کامطلب ہے کہ شرکت کرنے والوں کو غنیمت ضرور ملے گی، نیز اس کا حقدار ہرشخص نہیں بلکہ وہ مجاہد ہے جو جنگ میں شریک ہو، گویاذکر کردہ آیت میں جو اجمال تھا، اس حدیث نے اس کی وضاحت اور تشریح کردی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3119