قال ابو العالية: العوان النصف بين البكر والهرمة فاقع سورة البقرة آية 69 صاف لا ذلول سورة البقرة آية 71 لم يذلها العمل تثير الارض سورة البقرة آية 71 ليست بذلول تثير الارض ولا تعمل في الحرث مسلمة سورة البقرة آية 71 من العيوب لا شية سورة البقرة آية 71 بياض صفراء سورة البقرة آية 69 إن شئت سوداء ويقال صفراء كقوله جمالت صفر سورة المرسلات آية 33 فاداراتم سورة البقرة آية 72 اختلفتم.قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ فَاقِعٌ سورة البقرة آية 69 صَافٍ لا ذَلُولٌ سورة البقرة آية 71 لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ تُثِيرُ الأَرْضَ سورة البقرة آية 71 لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ مُسَلَّمَةٌ سورة البقرة آية 71 مِنَ الْعُيُوبِ لا شِيَةَ سورة البقرة آية 71 بَيَاضٌ صَفْرَاءُ سورة البقرة آية 69 إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ وَيُقَالُ صَفْرَاءُ كَقَوْلِهِ جِمَالَتٌ صُفْرٌ سورة المرسلات آية 33 فَادَّارَأْتُمْ سورة البقرة آية 72 اخْتَلَفْتُمْ.
ابوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «العوان» نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ «فاقع» بمعنی صاف۔ «لا ذلول» یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ «تثير الأرض» یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ «مسلمة» یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ «لا شية» یعنی داغی (نہ ہو)۔ «صفراء» اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے «جمالة صفر» میں ہے۔ «فادارأتم» بمعنی «فاختلفتم» تم نے اختلاف کیا۔ (مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" ارسل ملك الموت إلى موسى عليهما السلام فلما جاءه صكه فرجع إلى ربه، فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت، قال: ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة، قال: اي رب ثم ماذا، قال: ثم الموت، قال: فالآن، قال: فسال الله ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر، قال: ابو هريرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو كنت ثم لاريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الاحمر"، قال: واخبرنا معمر، عن همام، حدثنا ابو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا، قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، قَالَ: فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ"، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔
Narrated Abu Huraira: The Angel of Death was sent to Moses when he came to Moses, Moses slapped him on the eye. The angel returned to his Lord and said, "You have sent me to a Slave who does not want to die." Allah said, "Return to him and tell him to put his hand on the back of an ox and for every hair that will come under it, he will be granted one year of life." Moses said, "O Lord! What will happen after that?" Allah replied, "Then death." Moses said, "Let it come now." Moses then requested Allah to let him die close to the Sacred Land so much so that he would be at a distance of a stone's throw from it." Abu Huraira added, "Allah's Apostle said, 'If I were there, I would show you his grave below the red sand hill on the side of the road."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 619
ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بكل ما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم مه قال الموت قال فالآن فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله فلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
ارجع إلى عبدي فقل له الحياة تريد فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما وارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال ثم مه قال ثم تموت قال فالآن من قريب قال رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكث
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3407
حدیث حاشیہ: ملک الموت حضرت موسی ؑ کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔ لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔ مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے۔ انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔ حضرت موسی ؑ کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا۔ ہمارے حضور ﷺ سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔ کہا گیا ہےکہ حضرت موسی ؑ نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے حضور ﷺ کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نے آرام گاہ نصیب فرمائی۔ اگر حضور ﷺ مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔ پھر بھی آنحضرت ﷺ نےدعا فرمائی کہ یااللہ! میری قبر کو وثن (بت) نہ بنایو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔ الحمداللہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نما مشرکوں کو وہاں آپ کی قبر کو پوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3407
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3407
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔ انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ (مسند أحمد: 315/2) شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان) 115/14) امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔ (شرح السنة: 265/5) الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔ 2۔ موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔ حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا: اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3407
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1339
´ملک الموت کا (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنا ` «... أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ...» ”۔۔۔ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔۔۔“
تخریج الحدیث: یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے [1339، 3407] امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ مسلم النیسابوری [صحيح مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148، 6149] النسائي [سنن النسائي 4؍118، 119 ح2091] ابن حبان [صحيح ابن حبان، الاحسان 8؍38 ح6223، پرانا نسخه: ح6190] ابن ابي عاصم [السنة: 599] البيهقي فى الاسماء والصفات [ص492] البغوي فى شرح السنة [265/5، 266 ح 451 او قال: هذا حدهث متفق على صحته] الطبري فى التاريخ [434/1 دوسرا نسخه 505/1] الحاكم فى المستدرك [578/2 ح 4107 و قال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه] وابوعوانه فى مسنده [اتحاف المهرة 15؍104] امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے: أحمد بن حنبل [المسند 2؍269، 315، 533] عبدالرزاق فى المصنف [11؍274، 375 ح20530، 20531] همام بن منبه [الصحيفة: 60] اس حدیث کو سیدنا الامام ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بیان کیا ہے: ① همام بن منبه [البخاري: 3407 مختصراً، مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6149] ② طاؤس [البخاري: 1339، 3407 ومسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148] ③ عمار بن ابي عمار [أحمد 2؍533 ح10917 وسنده صحيح وصححه الحاكم على شرط مسلم 2؍578] اس روايت كي دوسری سند کے لئے دیکھئے: مسند أحمد [2؍351] ↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، اسے بخاری، مسلم، ابن حبان، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسیٰ علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔ ◈ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وكان موسيٰ غيورًا، فرأي فى داره رجلاً لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقءِ عينه التى فى الصورة التى يتصور بها، لا الصورة التى خلقه الله عليها» ”اور موسیٰ (علیہ السلام) غیور تھے۔ پس انہوں نے اپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا مار دیا۔ یہ مکا اس (فرشتے) کی (انسانی صورت والی) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس (اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا، اس پر یہ مکا نہیں لگا۔ إلخ“[الاحسان، نسخه محققه 14؍115] ◈ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ [ديكهئے شرح السنة 5؍266۔ 268] ◈ اور فرمایا کہ: ”یہ مفہوم ابوسلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں، اللہ ان (گمراہوں) کو ہلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔“[شرح السنة 5؍268] ↰ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے، لہٰذا انہوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاہتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ»[63-المنافقون:11]”اللہ تعالیٰ ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے۔“ کے خلاف نہیں ہے۔ «والحمدلله»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2091
´تعزیت کی ایک اور قسم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں موت کا فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا، جب وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے ایک طمانچہ رسید کیا، تو اس کی ایک آنکھ پھوٹ کر بہہ گئی، چنانچہ اس نے اپنے رب کے پاس واپس جا کر شکایت کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا جو مرنا نہیں چاہتا، اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اچھی کر دی، اور کہا: اس کے پاس دوبارہ جاؤ، اور اس سے کہہ: تم اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض انہیں ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2091]
اردو حاشہ: (1) بعض بدعقیدہ حضرات نے اس واقعے کا انکار کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نبی ملک الموت کو تھپڑ مار دے اور مرنے سے انکار کرے، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے۔ اس واقعے میں کوئی استبعاد نہیں۔ نقلاً یہ واقعہ بالکل صحیح ہے، عقلاً بھی کوئی اشکال نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ملک الموت انجانی انسانی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے کہ میں تیری جان نکالنے آیا ہوں۔ ظاہر ہے اس طرح تو کوئی بھی شخص کسی بھی انسان کو جان نکالنے نہیں دیتا بلکہ اپنا دفاع کرتا ہے، لہٰذا انھوں نے انسان سمجھ کر ملک الموت کو تھپڑ مارا۔ تھپڑ چہرے پر لگا اور آنکھ کو نقصان پہنچا۔ فرشتہ جب انسانی صورت میں آئے گا تو اس پر انسانی احکام ہی لاگو ہوں گے، لہٰذا آنکھ کے نقصان پر کوئی تعجب نہیں۔ فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے آنکھ درست کر کے بھیجا تو موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ انسان نہیں فرشتہ ہے (تبھی تو آنکھ فوراً ٹھیک ہوگئی۔) لہٰذا فوراً موت کے لیے تیار ہوگئے اگرچہ انھیں لمبی زندگی کی پیش کش کی گئی تھی۔ بتائیے اس میں کون سا عقلی اشکال ہے جس کی بنا پر صحیح حدیث کا انکار کیا جائے؟ [وکم من عائب قولا صحیحا و افته من الفھم السقیم]”کتنے ہی نقص نکالنے والے راست بول کو معیوب سمجھتے ہیں ان (عیب جوؤں) پر یہ سختی کمزور فہم کی وجہ سے ہوئی۔“ (2)”آنکھ پھوڑ دی“ یہ دلیل ہے کہ فرشتہ انسانی صورت میں آیا تھا، ورنہ فرشتے کی تو آنکھ نظر ہی نہیں آتی، پھوٹے گی کیسے؟ (3)”مرنا نہیں چاہتا“ یہ ملک الموت کا ظاہری حالات سے اندازہ ہے، ورنہ یہ وجہ نہ تھی بلکہ تھپڑ مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتہ اس حالت میں نہیں آیا تھا جس حالت میں روح قبض کرتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے انسان سمجھا اور اپنا دفاع فرمایا، اور یہ ان کا حق تھا۔ (4)”بیل کی پشت پر ہاتھ رکھے“ اس بات کا مقصد دراصل فرشتے کو یہ سمجھانا تھا کہ موسیٰ کا تھپڑ مارنا موت سے انکار کی بنا پر نہیں اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو پتا چل گیا کہ یہ فرشتہ ہے تو زندگی کی پیش کش قبول نہیں کی۔ درحقیقت یہ پیش کش نہیں تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی براءت مقصود تھی۔ ورنہ موت کا دن تو مقرر ہے۔ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، پیش کش کیسی؟ (5)”قریب کر دیا جائے“ معلوم ہوا مقدس مقام میں دفن ہونے کی خواہش درست ہے کیونکہ پڑوس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ حضرات ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عائشہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دفن ہونا پسند فرمایا، خواہش کی، اجازت حاصل کی اور پہلے وہ بزرگ تو دفن بھی ہوئے۔ (6)”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا“ یہ پوری روایت ہی آپ کا فرمان ہے۔ اگرچہ اس سند میں آپ کا ذکر صرف آخر میں ہے۔ (7) اس روایت میں تسلی اس طرح ہے کہ جب آخر کار مرنا ہی مقدر ہے تو کسی کی موت پر ضرورت سے زائد گھبراہٹ کیوں؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2091
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6148
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا تو جب وہ ان کے پاس پہنچا تو انھوں نے اسے تھپڑ رسید کیا اور اس کی آنکھ پھوڑدی وہ اپنے رب کے پاس آیا اور عرض کی: آپ نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اسے لوٹا دی اور فرمایا: اس کے پاس دوبارہ جاؤ اور ان سے کہو کہ وہ ایک بیل کی پشت پر ہاتھ رکھو، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6148]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لطمه: اسے تھپڑ مارا۔ (2) فقاعينه: اس کی آنکھ پھوڑ دی۔ (3) كثيب: ٹیلہ۔ فوائد ومسائل: موت کا فرشتہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے گھر ایک اجنبی آدمی کی شکل میں داخل ہوا، موسیٰ علیہ السلام نے اس کو پہچانا نہیں، اس لیے بلا اجازت آنے پر، دشمن خیال کر کے اپنے تحفظ و دفاع میں اسے تھپڑ مارا، چونکہ وہ انسانی شکل میں تھا، اس لیے فرشتہ واپس چلا گیا، اگر موت کا وقت آ چکا ہوتا تو فرشتہ اطلاع دے کر آتا اور مارے بغیر واپس نہ جاتا، موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دفاع میں آنکھ پھوڑی، اس لیے دیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ لوٹا بھی دی پھر جب فرشتہ دوبارہ آیا تو موسیٰ علیہ السلام مرنے کے لیے تیار ہو گئے، کیونکہ اب ان کا وقت مقرر ہو گیا تھا، اس لیے انہوں نے مزید زندگی کی خواہش نہیں کی، صرف ارض مقدسہ سے قرب کی خواہش کا اظہار کیا تو اللہ نے ان کی درخواست قبول کر لی اور ان کو بیت المقدس سے اس قدر قریب کر دیا کہ اگر بیت المقدس سے پتھر پھینکا جائے تو وہ ان کی قبر کے قریب گرے گا اور اسراء کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ علیہ السلام کی قبر دکھائی گئی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6148
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6149
ہمام بن منبہ کی ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کردہ احادیث میں سے ایک یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" ملک الموت حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اپنے رب کے پاس چلیں؟ تو حضرت موسیٰ ؑ نے اس کی آنکھ پر تھپڑ مار ا اور اس کی آنکھ نکا ل دی فر یا:" ملک الموت اللہ تعا لیٰ کے پاس واپس گیا اور کہا: تونے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا تھا جو موت نہیں چاہتا،اور اس نے میری آنکھ پھوڑ دی ہے چنانچہ اللہ تعا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6149]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: أجب ربك: اپنے رب کی دعوت قبول کرو، اپنے رب کے پاس چلو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6149
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1339
1339. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار!پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1339]
حدیث حاشیہ: بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1339
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1339
1339. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ملک الموت کو حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا گیا۔ جب وہ ان کے پاس آئے تو انھوں نے ایک طمانچہ رسید کیا (جس سے اس کی ایک آنکھ پھوٹ گئی) فرشتے نے اپنے رب کے پاس جاکر عرض کیا:تونے مجھے ایک ایسے بندے کے پاس بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ درست کردی اور فرمایا کہ ان (موسیٰ ؑ) کے پاس دوبارہ جا کر کہو کہ وہ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیں، جتنے بھی بال ان کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو ہر بال کے بدلے انھیں ایک سال کی زندگی دی جائے گی۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نےکہا:اے پروردگار!پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:پھر مرنا ہوگا۔ موسیٰ ؑ نےکہا: تو پھر ابھی آجائے۔ انھوں نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں ایک پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کردے۔ راوی حدیث (حضرت ابو ہریرہ ؓ) نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اگر میں وہاں ہوتا تو موسیٰ ؑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1339]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے عنوان میں نحوها کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے مراد باقی ماندہ وہ مقدس مقامات ہیں جن کی طرف رختِ سفر باندھنا جائز ہے، مثلا: حرم مکہ اور حرم مدینہ وغیرہ اور ایسے ہی مدافن انبیاء اور قبور اولیاء و شہداء ہیں، ان کے قرب و جوار سے رحمت و برکت کی امید کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ ؑ کی اقتدا ہے۔ (فتح الباري: 264/3) ہمارے نزدیک جہاں تک ارض مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا ہے، یہ تو ہر مومن کے ایمان کا تقاضا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے اللہ کے حضور عرض کیا تھا: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ) میں آئے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1890) لیکن مدافن شہداء اور مقابر اولیاء کے قرب و جوار میں رحمت و برکت کی امید کرتے ہوئے دفن ہونے کی تمنا کرنا اس سے ہمیں اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک و بدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان، پھر علم و عمل صالح نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بےکار ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب دجال آئے گا تو مدینہ منورہ منافقین سے بھرا ہو گا اور اسے تین جھٹکے لگیں گے جس سے تمام کافر اور منافق مدینے سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ (صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1881 و صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7390(2943)(2) اس حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بقعہ مبارکہ (بابرکت جگہ) کی حرمت و تقدیس ایمان و عمل کے بغیر نفع بخش ثابت نہیں ہو گی۔ ان کے بغیر ارض مقدس یا غیر ارض مقدس میں دفن ہونا برابر ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو خط لکھا کہ آپ ہماری ارض مقدس میں آ جائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سرزمین انسان کی پاکیزگی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، بلکہ نیک عمل انسان کو ضرور مقدس بنا دیتا ہے۔ (الموطأ للإمام مالك، الوصیة، حدیث: 1524) لیکن ایمان و اعمال صالحہ کے ساتھ کسی بھی ارض مقدس میں دفن ہونے کی خواہش کرنا مطلوب عین ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس فرق کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔ اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ایک نہایت ہی جلیل القدر اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ کے عمل اور تمنا کو پیش کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مزید لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس خواہش کا اظہار اس لیے کیا تھا کہ انہیں حضرات انبیاء کا قرب حاصل ہو جائے جو بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ اس رائے کو قاضی عیاض نے ترجیح دی ہے۔ البتہ علامہ مہلب نے فرمایا ہے کہ آپ نے جوار انبیاء میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدان حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمین شام ہی نے میدان محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔ (فتح الباري: 264/3)(3) حافظ ابن حجر ؒ نے پتھر پھینکے کی قدر مسافت کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ وہاں کھڑے ہو کر اگر پتھر پھینکا جائے تو ارض مقدس میں جا گرے، اس کا راز یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا تھا اور انہیں وادی تیہ میں چالیس سال تک بھٹکنے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اسی دوران میں حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے بھائی حضرت ہارون ؑ کی وفات ہوئی۔ چونکہ غلبہ جبارین کی وجہ سے ارض مقدس میں نہ جا سکے تھے، اس لیے آخر وقت تمنا کی کہ جتنا بھی ارض مقدس کے قریب ہو سکیں غنیمت ہے، کیونکہ قریب شے کا حکم بھی عین چیز کا حکم ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 264/3)(4) حضرت موسیٰ ؑ کے ملک الموت کو طمانچہ مارنے اور ان کی آنکھ پھوڑ دینے پر منکرین اور ملحدین کے جو اعتراضات ہیں انہیں ہم حدیث: 3407 کے فوائد میں ذکر کریں گے اور وہاں ان کا شافی جواب بھی دیا جائے گا۔ بإذن الله۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے پیش نظر مترجم کی مناجات حسب ذیل ہے: آرزو ہے دل میں مجھے نصیب کب وہ دن ہو... مروں میں مدینے میں اور بقیع میرا مدفن ہو
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1339