ہم سے محمد بن سعید اصبہانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں معمر نے ‘ انہیں ہمام بن منبہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خضر علیہ السلام کا یہ نام اس وجہ سے ہوا کہ وہ ایک سوکھی زمین (جہاں سبزی کا نام بھی نہ تھا) پر بیٹھے۔ لیکن جوں ہی وہ وہاں سے اٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Al-Khadir was named so because he sat over a barren white land, it turned green with plantation after (his sitting over it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 614
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3402
حدیث حاشیہ: کہتےہیں حضرت خضر کانام بلیا بن ملکان بن قانع بن عائبہ بن شالخ بن ارفحشد بم سام بن نوع ہے۔ وہ حضرت ابراھیم سےپہلے پیدا ہوچکے تھے۔ ابن عباس ؓ سےمنقول ہےکہ وہ حضرت آدم کےصلبی بیٹے تھے اوربھی مختلف روایات ہیں۔ بقول قسطلانی اکثر علماء وصوفیا کہتےہیں کہ وہ زندہ ہیں مگر حضرت امام بخاری اور محقین امت اہل حدیث نےکہا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔ ان کے بیٹھے سے زمین کا سر سبز ہونا ان کی کرامت تھی۔ اولیاء اللہ اس کے برحق ہے بشرطیکہ صحیح طور پر ثابت ہو۔ من گھڑت نہ ہو مگر یہ کرامت محض اللہ تعالیب کاعطیہ ہوتی ہے۔ اولیاءاللہ ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔ فروۃ بیضاء کی تفسیر میں امام ابن حجر لکھتے ہیں۔ الفروة قيل هي جلدة وجه الأرض جلس عليها فانبتت وصارت حضرا و جاز في الخضرفتح الخاء و كسرها واختلف في نبوته قال الثعلبي كان في زمن إبراهيم الخليل وقال الأكثرون أنه حي موجود اليوم –إلى آخره كذا في الكرماني قال العيني والمطابقة من حديث أن الخضراء مذكور فيه كذا في الفتح- روایت میں جس شخص نوفل بکالی کا ذکر ہے اہل دمشق سےایک فاضل تھا اوریہ بھی مروی ہےکہ یہ کعب احبار کابھتیجا تھا، اس کا خیال تھاکہ صاحب خضر موسی بن میشا ہیں جو توراۃ کی بنا پررسول ہیں مگر صحیح بات یہی ہےکہ یہ صاحب خضر موسیٰ بن عمران تھے۔ مجمع البحرین جس کا ذکر ہے وہ جگہ ہے جہاں بحر فارس اور بحر روم ملتےہیں۔ مچھلی جوناشتہ کےلیے ساتھ بھون کر رکھی گئی تھی جب حضرت موسیٰ اسے ہمراہ لےکر صخرہ کےپاس پہنچے تووہاں آب حیات کاچشمہ تھا جس سے وہ مچھلی زندہ ہوکر دریامیں کود گئی۔ حضرت حضر کےکاموں پر حضرت موسیٰ کےاعتراضات ظاہری حالات کی بنا پرتھے۔ حضرت حضر نے جب حقائق کا اظہار کیا توحضرت موسیٰ کےلیے ک بجز تسلیم کے کوئی چارہ نہ تھا۔ مزید تفصیلات کتب تفاسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3402
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3402
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت خضر کے بیٹھنے سے اس زمین کا سرسبز ہونا، ان کی کرامت تھی۔ اولیاء کی کرامت برحق ہے بشرط یہ کہ وہ صحیح طور پر ثابت ہو، من گھڑت اور خود ساختہ نہ ہو۔ واضح رہے کہ اولیاء کی کرامات محض اللہ کا عطیہ ہوتی ہیں اور اولیاء ہروقت اللہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اولیاء اللہ کی تعریف اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾”جو ایمان لاتے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ “(یونس: 63/10) چونکہ ایمان اورتقویٰ کے کئی درجات ہیں، اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے بھی کئی درجے ہیں۔ عرف عام میں اولیاء اللہ ان لوگوں کو کہتے ہیں جو ایمان وتقویٰ کے بلند درجات پر فائز ہوں۔ ہمارے اسلاف میں کچھ کی طبیعتیں زہد وتقویٰ اور عبادت کی طرف مائل تھی انھیں زہاد اور صالحین کا نام دیاجاتا تھا۔ 2۔ تیسری صدی میں جب مسلمانوں پر یونانی اور ہندی فلسفے کے اثرات پڑنے لگے تو یہ طبقہ ترک دنیا اور رہبانیت کی طرف مائل ہوگیا۔ اس کے بعد ولایت کا مفہوم بھی یکسر بدل گیا بلکہ یہ لفظ صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہوگیا جو ریاضت اور چلہ کشی کرتے اور باقاعدہ کسی شیخ کی بیعت میں منسلک ہوتے۔ ان سے کرامات کا ظہور لازمی قراردیا گیا۔ پھرجب غیر اسلامی عقائد، وحدت الوجود، ودحدت الشہود اورحلول ہماری تہذیب میں گھس آئے تو ولایت کا معیار قرارپایا کہ جس کسی سے کرامات کا ظہور جتنا زیادہ ہو وہ اسی درجے کا ولی ہوگا۔ بعض نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہمارا براہ راست اللہ سے رابطہ ہے اور ہمیں رسول اللہ ﷺ سے ملنے والی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ایک باطنی نظام کی داغ بیل رکھ دی گئی۔ پیری مریدی کا دھندا شروع ہوا۔ اس کے بعد اپن دین کی طریقت کومغز اور شریعت کو ہڈیان قرار دے کر ایک طرف پھینک دیا گیا۔ شرعی اعتبار سے یہ تفریق بے بنیاد اور خودساختہ ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3402