(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن ابي سلمة بن عبد الرحمنوسعيد بن المسيب، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" نحن احق بالشك من إبراهيم إذ قال رب ارني كيف تحيي الموتى قال اولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي سورة البقرة آية 260 ويرحم الله لوطا لقد كان ياوي إلى ركن شديد ولو لبثت في السجن طول ما لبث يوسف لاجبت الداعي".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِوَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260 وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سعید بن مسیب نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔“ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "We are more liable to be in doubt than Abraham when he said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead." . He (i.e. Allah) slid: 'Don't you believe then?' He (i.e. Abraham) said: "Yes, but (I ask) in order to be stronger in Faith." (2.260) And may Allah send His Mercy on Lot! He wished to have a powerful support. If I were to stay in prison for such a long time as Joseph did I would have accepted the offer (of freedom without insisting on having my guiltless less declared).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 591
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3372
حدیث حاشیہ: یعنی قید سے چھوٹنا غنیمت سمجھتا۔ حضرت یوسف ؑ کے صبر پر آفرین ہے کہ اتنی مدت تک قید میں رہنے کے بعد بھی اس بلانے والے کے بلاوے پر نہ نکلے جو بادشاہ کی طرف سے آیا تھا اور پہلے اپنی صفائی کے خواہاں ہوئے۔ یہ آنحضرت ﷺ نے تواضع کی راہ سے فرمایا اور حضرت یوسف ؑ کا مرتبہ بڑھانے کے لئے۔ ورنہ آنحضرت ﷺ صبرواستقلال بھی کچھ کم نہ تھا۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3372
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3372
تخریج الحدیث: یہ روایت صحیح بخاری میں چھ مقامات پر ہے: [3372، 3375، 3387، 4537، 4694، 6992] صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے: صحیح مسلم [151 وبعد ح2370] سنن الترمذی [3116 وقال: هذا حديث حسن] صحیح ابن حبان [6174 دوسرا نسخه: 6207] سنن ابن ماجہ [4026] مشکل الآثار للطحاوی [1؍134۔ 136] صحیح ابی عوانہ [1؍79، 80] المستخرج لابی نعیم [1؍215 ح380] تفسیر طبری [12؍88، 139] المستدرک للحاکم [2؍561 ح4054 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي] النسائی فى الکبریٰ [11254] الایمان لابن مندۃ [1؍487 ح371، 1؍485 ح368، 369] الادب المفرد للبخاری [605، 896] تفسیر بغوی [2؍395، 396] وشرح السنۃ لہ [1؍114، 115 ح63 وقال البغوي: ”هذا حديث متفق على صحته“] تاریخ بغداد [7؍182 ت3631] اسے امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے: أحمد بن حنبل [2؍322، 326، 332، 346، 350، 8590، 384، 389، 416، 533] وسنن سعید بن منصور [ح1097 طبعه جديده] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے بیان کرنے والے درج ذیل ثقہ وجلیل القدر تابعین ہیں: ① ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 382؍151 وبعد ح2370] ② سعید بن المسیب [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 151] ③ ابوعبید [صحيح بخاري: 3387 وصحيح مسلم: 151] ④ عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج [صحيح بخاري: 3375 وصحيح مسلم: 151 بعد ح: 2370] اس روایت کے شواہد و تائیدی روایات کے لیے دیکھئے: تاریخ طبری [1؍303 وسنده حسن] ومصنف ابن ابی شیبہ [11؍523۔ 525 ح31826] والاوسط للطبرانی [9؍375 ح8808] والمستدرک للحاکم [2؍563 ح4059] ↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے پہلے یہ حدیث دنیا میں صحیح سند سے موجود تھی۔ «والحمدلله» اس کی تائید قرآن کریم میں ہے کہ لوط علیہ السلام نے فرمایا: «لَوْ أَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِيْ إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ» ”کاش میرے پاس تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی یا میں کسی طاقتور سہارے کی پناہ لے سکتا۔“[سورة هود: 80، تدبر قرآن 4؍133، 134] تنبیہ بلیغ: تدبر قرآن کا مصنف امین احسن اصلاحی منکرین حدیث میں سے تھا لہٰذا اس کا ترجمہ ان منکرین حدیث پر حجت قاطعہ ہے۔ پرویز نے «ركن» کا ترجمہ ”سہارا“ کیا ہے۔ [ديكهئے لغات القرآن 780/2] مشہور تابعی اور مفسر قرآن امام قتادہ رحمہ اللہ نے «ركن شديد» کی تشریح «العشيرة» خاندان سے کی ہے۔ [تفسير طبري 21؍52، 53 وسنده صحيح] مضبوط قبیلے والوں کی حمایت و مدد مانگنا شرک نہیں ہے بلکہ یہ استمداد ماتحت الاسباب ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «مَنْ أَنصَارِيْ إِلَى اللَّهِ»”کون میرا مددگار ہے اللہ کی راہ میں؟“[سورة الصّف: 14] ماتحت الاسباب مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں ہوتا۔ شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک کیا جائے یا اموات سے مافوق الاسباب مدد مانگی جائے لہٰذا منکرین حدیث کی طرف سے سیدنا لوط علیہ السلام پر شرک کا الزام باطل ومردود ہے۔ «والحمدلله»
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3372
� فهم الحدیث: ”ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کے زیادہ حقدار ہیں“ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے شک کی وجہ سے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ انہوں نے مزید اطمینان قلب کے لئے یہ مطالبہ کیا تھا اور ایک حدیث بھی ہے کہ آنکھوں دیکھا سنی سنائی بات کی طرح نہیں۔ [صحيح جامع الصغير 5373 مسند احمد 215/1] علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شک کا لفظ استعمال کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم ان سے زیادہ شک کے حقدار ہوتے (لیکن انہوں نے شک نہیں کیا اس لیے ہم بھی شک نہیں کرتے)۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 92
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3372
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کا مردوں کو زندہ کرنے کا متعلق سوال کرنا شک کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ مشاہدے اور معائنے سے علم میں اضافہ چاہتے ہیں تھے کیونکہ آنکھوں دیکھی چیز سے جو معرفت اور طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ استدلال سے نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ علم الیقین سے عین الیقن تک جانا چاہتے تھے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر براہیم ؑ کا سوال شک کی بنا پر ہوتا تو ہم اس شک کے زیادہ حق دار تھے لیکن جب ہمیں شک نہیں تو وہ شک نہ کرنے کے زیادہ حق دارہیں لیکن ان کا سوال مشاہدے کے لیے تھا تاکہ کسی سے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اپنا اظہار مافی ضمیر کر سکیں۔ کہا جاتا ہے۔ ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ “ 2۔ اسی طرح حضرت لوط ؑ جو اپنے تبلیغی مرکز "سدوم" میں غریب الدیار تھے ان کا یہاں کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا بیوی بھی کافر اور بے وفا تھی ایسے حالات میں معزز مہمانوں کے ساتھ قوم نے جو طوفان بد تمیزی اٹھایا وہ انسانی عزت و شرافت کے بالکل برعکس تھا۔ اس وقت حضرت لوط ؑ نے ظاہری اسباب کے فقدان کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ”کاش میرے پاس تمھارے مقابلے کے لیے قوت ہوتی یا کسی مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے لیتا۔ “ یہ الفاظ سن کر فرشتےخاموش نہ رہ سکے اور کہنے لگے۔ آپ اتنے پریشان نہ ہوں۔ ہم لڑکے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ ہمیں چھیڑنا تو درکنار تمھارا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ "قوۃ"سے مراد طاقت جو کسی کی مدد کے بغیر انھیں حاصل ہوا اور "رکن شدید" سے وہ قوت مراد ہے جو کسی دوسرے کی مدد سے حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے یہاں کوئی چیز اسباب سے خالی نہیں اللہ تعالیٰ تو ہر حال اور بہرمکان مددگار فریاد رس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کی مدح فرمائی کہ وہ تو زبردست رکن کی پناہ لینا چاہتے تھے مگر وہ جانتے تھے کہ اس در دنیا میں اعانت صرف دو میں منحصر ہے اپنی اور غیر کی۔ اس لیے ان دو کا ذکر فرمایا۔ بہر حال حضرت لوط ؑ کا مذکورہ الفاظ کہنا ظاہری اسباب کے اعتبار سے تھا بصورت دیگر ایک نبی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر قوم یا قبیلے سے کیسے مدد طلب کر سکتا ہے؟ 3۔ حضرت یوسف ؑ کے متعلق آپ نے جس قسم کے جذبات کا اظہار فرمایا وہ اپنی تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا: آپ کے اندر تو صبر و استقلال بدرجہ اتم موجود تھا کسی نے سچ کہا ہے۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری بہر حال حضرت یوسف ؑ نے قید سے آزادی کو ٹھکرادیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب تک میرے اس جرم بے گناہ ہی کی تحقیق نہ ہو جائے اور میری پوری طرح بریت نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں کیونکہ میں کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ نہیں چاہتا کہ شاید اس معاملے میں یوسف ؑ کا بھی کچھ قصور تھا بہر حال رسول اللہ ﷺ نے حضرت یوسف ؑ کے صبر و تحمل اور ثابت قدمی و متانت کی تعریف کی ہے کہ اتنا عرصہ قید میں رہنے کے باوجود جلدی سے کام لے کر اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3372
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4026
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے) کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جائے، اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4026]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔
(2) ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔
(3) حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا سوز مطالبہ نہ کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرأت نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔ میرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔
(4) حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔ جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا، اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔ اور مجرم (عزیز مصر کی بیوی) کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔
(5) رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔ اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔
(6) خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔ ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔
(7) دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔ ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریں اور ان سے محبت رکھیں۔ جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔ خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی، تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4026
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 382
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہم ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں، جب انھوں نے کہا تھا: ”اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ ابراہیم ؑ نے جواب دیا: کیوں نہیں (مجھے یقین ہے) لیکن میں چاہتا ہوں میرا دل (مشاہدہ سے) اور زیادہ مطمئن ہو جائے۔“ اور آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط ستون کی پناہ چاہتے تھے۔“ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر قید خانہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:382]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا تھا ﴿كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ﴾”تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا؟“ یعنی مردوں کو زندہ کرنا طے ہے، اور ان کے زندہ کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے پوچھا: ﴿أَوَلَمْ تُؤْمِن﴾”کیا تجھے مردوں کے زندہ کرنے پر یقین نہیں؟“ تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: ”کیوں نہیں یقین ہے۔ “ سوال یہ تھا: کہ ان کے زندہ کرنے کی صورت اور کیفیت کیا ہے؟ اس کا مشاہدہ مطلوب ہے، دلیل اور استدلال سے انسان کو علم حاصل ہو جاتا ہے، اور وہ یقینی علمی واستدلالی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی چیز کا مشاہدہ اور معائنہ ہو جائے تو یہ یقینی عینی ہوتا ہے، جس میں قوت ویقین زیادہ ہوتا ہے، اس لیے قلبی اطمینان وتسکین بھی بڑھ جاتا ہے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تیری قوم بچھڑے کی پوجا کرنے لگی ہے، تو ان پر وہ اثر نہیں ہوا جو قوم کو اس شنیع حرکت میں مبتلا دیکھ کر ہوا۔ حدیث میں ہے(لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ) ”خبر واطلاع، معائنہ ومشاہدہ کا مقابلہ نہیں کرتی۔ “ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام کا سوال کسی شک وشبہ کی بنا پر نہ تھا، اگر ابراہیم کو اس میں شک ہوتا تو یقینا ہمیں بھی شک ہوتا، جب ہمیں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام کو شک کیسے ہو سکتا ہے۔ “ امام زرکشی نے امثال السائرہ کے مصنف کے حوالہ سے نقل کیا ہے: افعل کا صیغہ کبھی کبھی دونوں چیزوں سے کسی معنی (صفت) کی نفی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ﴾”کیا وہ بہتر ہیں یا قوم تبع۔ “ مقصد یہ ہے کہ دونوں ہی بھلائی سے محروم اور خالی ہیں۔ یا کہتے ہیں: (الشیطان خیر من فلان) ”فلاں سے شیطان اچھا ہے“ مقصد یہ ہے دونوں خیر سے خالی ہیں۔ (ارشاد الساری: 5/368) اس استعمال کے مطابق "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ" کا معنی ہے ”ہم میں سے کسی کو شک نہیں ہے۔ “ نہ ابراہیم علیہ السلام نے شک کیا، نہ ہمیں شک ہے۔ اس لیے سوال بھی زندہ کرنے کی کیفیت کے بارے میں تھا۔ (فتح الباری: ج6، کتاب الانبیاء) زندہ کرنے کے بارے میں نہ تھا، کیونکہ زندہ کرنا تو معلوم تھا کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ (2) يَرْحَمُ اللهُ لُوطًا: حضرت لوط علیہ السلام کے پاس جب فرشتے، خوبرو جوانوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے، اور ان کی قوم اپنی عادت بد کے مطابق ان پر دست درازی کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئی، اور لوط علیہ السلام نے مہمانوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر ہر قسم کے جتن کرلیے، لیکن قوم والے باز نہ آئے، تو انہوں نےمہمانوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کےلیے، انتہائی پریشانی کے عالم میں فرمایا: ”اے کاش! آج مجھ میں ذاتی وشخصی طور پر اس قدر طاقت وقوت ہوتی کہ میں کسی کے تعاون کے بغیر اپنے طور پر مہمانوں کا دفاع کر سکتا، یا مجھے اپنے خاندان اور قوم کی نصرت وحمایت حاصل ہوتی، تو آج میرے مہمانوں کا دفاع کرکے میری عزت بچاتی۔ “ کیونکہ یہ لوگ آپ کا اصل خاندان نہیں تھے، دوسرے لوگوں کی طرف آپ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا، اس کی وضاحت وتبیین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت فرمائے! وہ ایک مضبوط پناہ چاہتے تھے۔ “ یعنی: یہاں فعل، ارادہ فعل کے معنی میں ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾”جب تم نماز کےلیے اٹھنے کا ارادہ کرو تو نماز سے پہلے وضو کر لو۔ “ یا فرمایا: ﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ﴾”جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کر و تو پہلے "اعوذ باللہ" پڑھ لو۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ کی اعانت ونصرت کی نفی مقصود نہیں ہے کہ ان کو اللہ کی پناہ حاصل نہ تھی، اور انہوں نے اس پر نعوذ باللہ اعتماد نہ کیا۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے، اور ہر کام ظاہری اسباب کے پردہ میں ہوتا ہے، ظاہری اسباب ووسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وگرنہ رسول اکرم ﷺ کو جنگوں میں زرع پہننے کی ضرورت لاحق نہ ہوتی، اور دشمن کے مقابلہ میں تیاری کرکے نکلنے کی بھی حاجت نہ ہوتی۔ اور مدینہ میں پہنچ کر خود آپ نے فرمایا تھا «لَيْتَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي صَالِحًا يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ»”اے کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی مضبوط آدمی آج رات میری حفاظت کرتا۔ “ اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا: "مَنْ یَکْلَوْنَا اللَّیْلَةَ" (لامع الداری: ج8/27 حاشیۃ: 9) ”آج رات لشکر کی حفاظت کون کرے گا؟“ تو کیا آپ کو نعوذ باللہ، اللہ کی نصرت وحمایت اور حفاظت پر اعتماد نہ تھا؟ چونکہ لوط علیہ السلام کے سامنے اللہ کی نصرت وحمایت تو ایک مسلمہ حقیقت تھی، اس لیے اس کے اظہار کی ضرورت نہ تھی۔ ظاہری اسباب کے تذکرہ کی ضرورت تھی، انھی اساب کا انہوں نے تذکرہ فرمایا، اور ان کے حصول کی خواہش وآرزو کی۔ (3) لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ: ”میں بلانے والے کی آواز پر لبیک کہتا۔ “ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات اور ان کی ہمت وحوصلہ کی تعریف فرمائی ہے، کہ انہوں نے بغیر کسی جرم کے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا، لیکن اپنی برأت کے اظہار تک، جیل سے نکلنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں اس قدر صبر وتحمل اور استقلال وپامردی کا مجسمہ ہونے کے باوجود، بادشاہ کے ایلچی کی بات سن کر باہر نکل آتا۔ اور اپنی برأت کے اظہار کا معاملہ پیش نہ کرتا۔ اور یہ بات ظاہر ہے نبی اکرم ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات کی تعریف کی خاطر کہی ہے۔ ایک شجاع اوردلیر آدمی کسی کی شجاعت وبسالت کی تعریف کرے تو اس سے اس کی اپنی شجاعت اوردلیری کی نفی نہیں ہوتی، وہ تو مخاطبین کے نزدیک مسلم ہے، رستم زماں کسی کی تعریف کرے، تو کیا اس سے اس کے مقام ومرتبہ میں کسی قسم کی کمی آجائے گی؟ ہرگز نہیں۔ بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ ”یوسف علیہ السلام کے لیے چلے جانا ہی اولیٰ اورارجح تھا، ٰ کیونکہ ابتلاء اور مصیبت کو دعوت دینا یا اس کو قائم رکھنا مناسب نہیں، باہر نکل کر ان کو تبلیغ کے زیادہ مواقع میسر آتے۔ “ تو یہ بات درست نہیں ہے، یوسف علیہ السلام نے ابتلاء کو دعوت نہیں دی، نہ اس کو قائم رکھنا چاہا۔ ان کا باہر آنا تو اب طے تھا، لیکن وہ اپنی عصمت وعزت کی طہارت وصفائی کے بغیر نہیں آنا چاہتے تھے، کیونکہ الزام تراشی اورتہمت کے ازالہ کے بغیر اگر وہ نکل آتے تو یہ چیز ان کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتی۔ اور پاکدامنی کے ظہور کے بغیر بادشاہ کے سامنے چلے جاتے تو انہیں الزام تراشی کا احساس کھل کر بات کرنے کی جرأت پیدا نہ ہونے دیتا، اور طہارت کے نتیجہ میں بادشاہ کی نظر میں جو مقامِ رفیع ملا وہ بھی نہ ملتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 382
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6142
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ”ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا، اے میرے رب! مجھے دکھائیے، آپ مردوں کو کس طرح زندہ کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں، کہا، کیوں نہیں، لیکن میں چاہتا ہوں (مشاہدہ سے) میرا دل مطمئن ہو جائے اور آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے، وہ مضبوط پناہ کا تحفظ چاہتے تھے او راگر میں جیل میں یوسف علیہ السلام کی لمبی قید کاٹتا تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6142]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث کی تشریح و توضیح کتاب الایمان، باب دلائل کی کثرت سے دلی طمانیت میں اضافہ ہوتا ہے، گزر چکی ہے، ركن: جس سے قوت حاصل کی جائے۔ ركن الرجل: آدمی کا قبیلہ و قوم۔ نیز تفصیل کے لیے دیکھیں سنت خیر الانام از پیر کرم شاہ ص 232 تا 236۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6142
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4537
4537. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہم حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت شک کے زیادہ لائق ہیں جبکہ انہوں نے کہا تھا: اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالٰی نے جواب دیا: کیا تمہیں یقین نہیں ہے؟ کہا: کیوں نہیں، لیکن اس لیے کہ میرا دل (پوری طرح) مطمئن ہو جائے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4537]
حدیث حاشیہ: اللہ نے پھر ان سے فرمایا تم چار پرندوں کو پکڑو اور ان کا گوشت خلط ملط کر کے چار پہاڑوں پر رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ۔ اللہ کے حکم سے زندہ ہو کر دوڑے چلے آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ اپنی جگہ پر یہ واقعہ تفصیل سے موجود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4537
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4537
4537. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہم حضرت ابراہیم ؑ کی نسبت شک کے زیادہ لائق ہیں جبکہ انہوں نے کہا تھا: اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالٰی نے جواب دیا: کیا تمہیں یقین نہیں ہے؟ کہا: کیوں نہیں، لیکن اس لیے کہ میرا دل (پوری طرح) مطمئن ہو جائے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4537]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہاں پر ایک اشکال ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ جلیل القدر پیغمبر ہیں۔ انھوں نے احیائے موتی (مردوں کے زندہ ہونے کے بارے) میں اظہارشک کیوں کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے قطعاً شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ تو احیائے موتی کی کیفیت کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے وہ بھی اس لیے کہ جب انھوں نے نمرود سے کہا: میرا رب زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو خیال آیا کہ علم الیقین سے عین الیقین تک ارتقاء فرمائیں اور اس کا مشاہدہ کریں۔ 2۔ علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں اس حدیث سے حضرت ابراہیم ؑ کا شک کرنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کی نفی ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب شک کے حق دار ہونے کے باوجود ہمیں کوئی شک نہیں تو ابراہیم ؑ بالاولیٰ شک وشبہ سے بالا تر ہیں۔ (الکرماني: 43/16) دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے صرف کیفیت احیا میں قلبی اطمینان کے لیے درخواست کی تھی شک کی بنا پر نہیں تھی۔ اگر شک کی وجہ سے ایسا ہوتا تو ابراہیم ؑ سے زیادہ شک کا حق ہمیں ہوتا۔ دونوں صورتوں میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد تواضع اور انکسار پر مبنی ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ”ہم“ سے مراد آپ کی ذات گرامی نہیں بلکہ آپ کی امت ہو۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4537