(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال: اخبرني اخي عبد الحميد، عن ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يلقى إبراهيم اباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة، فيقول له إبراهيم: الم اقل لك لا تعصني، فيقول: ابوه فاليوم لا اعصيك، فيقول إبراهيم: يا رب إنك وعدتني ان لا تخزيني يوم يبعثون فاي خزي اخزى من ابي الابعد، فيقول الله تعالى: إني حرمت الجنة على الكافرين، ثم يقال: يا إبراهيم ما تحت رجليك فينظر فإذا هو بذيخ ملتطخ فيؤخذ بقوائمه فيلقى في النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَخِي عَبْدُ الْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لَا تَعْصِنِي، فَيَقُولُ: أَبُوهُ فَالْيَوْمَ لَا أَعْصِيكَ، فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: يَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الْأَبْعَدِ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے بھائی عبدالحمید نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں سعید مقبری نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "On the Day of Resurrection Abraham will meet his father Azar whose face will be dark and covered with dust.(The Prophet Abraham will say to him): 'Didn't I tell you not to disobey me?' His father will reply: 'Today I will not disobey you.' 'Abraham will say: 'O Lord! You promised me not to disgrace me on the Day of Resurrection; and what will be more disgraceful to me than cursing and dishonoring my father?' Then Allah will say (to him):' 'I have forbidden Paradise for the disbelievers." Then he will be addressed, 'O Abraham! Look! What is underneath your feet?' He will look and there he will see a Dhabh (an animal,) blood-stained, which will be caught by the legs and thrown in the (Hell) Fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 569
يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة فيقول له إبراهيم ألم أقل لك لا تعصني فيقول أبوه فاليوم لا أعصيك فيقول إبراهيم يا رب إنك وعدتني أن لا تخزيني يوم يبعثون فأي خزي أخزى من أبي الأبعد فيقول الله إني حرمت الجنة على الكافرين ثم يقال يا إ
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3350
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہئے جو اولیاءاللہ کے بارے میں جھوٹی حکایات و کرامات گھڑگھڑ کر ان کوبدنام کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بڑے پیرجیلانی صاحب نے روحوں کی تھیلی حضرت عزرائیل ؑ سے چھین لی جن میں مومن و کافر سب کی روحیں تھیں وہ سب جنت میں داخل ہوگئے۔ ایسے بہت سے قصے بہت سے بزرگوں کے بارے میں مشرکین نے گھڑ رکھے ہیں۔ جب حضرت خلیل اللہ جیسے پیغمبرقیامت کے دن اپنے باپ کے کام نہ آسکیں گے تو اور دوسرے کسی کی کیا مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کسی مرید یا شاگرد کو بخشوا سکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3350
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3350
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابراہیم ؑ کے باپ آزر کو بجو کی شکل میں مسخ کردیاجائے گا کیونکہ یہ تمام جانوروں میں سے زیادہ بے وقوف ہے۔ وہ ضروری چیزوں سے بھی غافل ہوجاتا ہے جن سے غفلت نہیں برتی جاتی۔ جب آپ کے باپ نے آپ کی نصیحت کو قبول نہ کیا اور شیطان کے فریب میں پھنسارہا، نیز وہ ضروری امر سے غافل رہا تو قیامت کے دن اسے بجو بنادیا جائےگا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اگرکفر پرمرا ہوتو اس کے بیٹے کا بلند مرتبہ ہونا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ بیٹے کو باپ کا بلند مرتبہ ہونا ہی فائدہ دے سکتا ہے جیسا کہ حضرت نوح، اور ان کے بیٹے کا واقعہ ہے۔ 3۔ اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو اولیائے کرام ؑ کے بارے میں جھوٹی کرامات بیان کرکے ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ 4۔ جب حضرت ابراہیم ؑ قیامت کے دن اپنے باپ کے کام نہیں آسکیں گے تو کسی کا کیا مجال ہے کہ وہ اپنے کسی عقیدت مند یا تعلق دار کو اللہ کے ہاں پروانہ نجات دے سکے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3350
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4769
´ابراہیم علیہ السلام کی والد کے لیے دعا ` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد سے (قیامت کے دن) جب ملیں گے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب سب اٹھائے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4769]
� فوائد و مسائل: اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں مثلاً: ➊ «كتاب التفسير للنسائي [ح395] وسنده حسن» ➋ «كشف الاستار في زوائد البزار [22/1ح97] و سنده حسن» اس صحیح حدیث کو قرآن مقدس کے خلاف قرار دینا اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جو قرآن اور حدیث دونوں سے تہی دامن اور کنگلا ہو۔ یہ کہنا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تو براءت کر دی تھی اس بات کے منافی نہیں ہے کہ قیامت کے دن جب وہ اپنے والد کو دیکھیں گے تو پدری رشتے کہ وجہ سے جو کہ فطری امر ہے اپنے باپ کو جہنم کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ رب العالمین کے دربار میں یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے سامنے انبیاء اور اولیاء سب مجبور ہیں، ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔
توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 33
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4769
4769. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم ؑ جب قیامت کے دن اپنے باپ سے ملیں گے تو اللہ تعالٰی سے عرض کریں گے: اے میرے رب! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے اس دن تو مجھے رسوا نہیں کرے گا۔ تو اللہ تعالٰی انہیں جواب دے گا: میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4769]
حدیث حاشیہ: آذر کو جنت نہ مل سکے گی مگر اللہ پاک حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچانے کے لئے آذر کی شکل بدل کر اسے دوزخ میں ڈال دے گا تاکہ عام طور پر محشر میں اس کی پہچان ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے شرمندگی کا سبب نہ ہو۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن انبیائے کرام کی شفاعت صرف ان ہی کے حق میں مفید ہوگی جن کے لئے اللہ کی رحمت شامل حال ہو گی۔ آیت ﴿وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى﴾(الأنبیاء: 28) کا یہی مفہوم ہے۔ اللھم ارزقنا شفاعة حبیبك محمد صلی اللہ علیه وسلم یوم القیامة آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4769
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4769
4769. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم ؑ جب قیامت کے دن اپنے باپ سے ملیں گے تو اللہ تعالٰی سے عرض کریں گے: اے میرے رب! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے اس دن تو مجھے رسوا نہیں کرے گا۔ تو اللہ تعالٰی انہیں جواب دے گا: میں نے جنت کافروں پر حرام کر دی ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4769]
حدیث حاشیہ: قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کریں گے کہ اے باری تعالیٰ! قیامت کے دن مجھے تمام اولین اورآخرین کے سامنے یوں رسوا نہ کرنا باپ سزا پا رہا ہو اور بیٹا کھڑا دیکھ رہا ہو۔ قیامت کےدن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اورگرد وغبار چڑھ رہا ہوگا۔ اس وقت اپنے والد سے کہیں گے: میں نے تمھیں نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ باپ کہے گا: آج کے بعد میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھرحضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے: اے میرے رب! اس سے بڑھ کر ذلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ میرا باپ ذلیل ہو رہا ہے اور تیری رحمت سے محروم ہے، پھر اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہیں گے: ذرا اپنے پاؤں تو دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو گندگی میں لتھڑا ہوا ایک بجو نظر آئے گا، پھر اس کے پاؤں سے پکڑ کر اس بجو کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3350) یعنی ان کا باپ جہنم میں داخل ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رسوائی سے بچانے کے لیے ان کے باپ کی صورت مسخ کرکے بجو کی شکل میں اسے جہنم رسید کرے گا تاکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اس کی شناخت ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی رسوائی اور شرمندگی کا سبب نہ بنے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4769