وقول الله تعالى: {قالوا يا ذا القرنين إن ياجوج وماجوج مفسدون في الارض}.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأَرْضِ}.
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں فرمایا «قالوا يا ذا القرنين إن يأجوج ومأجوج مفسدون في الأرض»”وہ لوگ کہنے لگے۔ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج لوگ ملک میں بہت فساد مچا رہے ہیں۔“
وقول الله تعالى: {ويسالونك عن ذي القرنين قل ساتلو عليكم منه ذكرا إنا مكنا له في الارض وآتيناه من كل شيء سببا فاتبع سببا} إلى قوله: {ائتوني زبر الحديد} واحدها زبرة وهي القطع {حتى إذا ساوى بين الصدفين} يقال عن ابن عباس الجبلين، والسدين الجبلين {خرجا} اجرا {قال انفخوا حتى إذا جعله نارا قال آتوني افرغ عليه قطرا} اصبب عليه رصاصا، ويقال الحديد. ويقال الصفر. وقال ابن عباس النحاس. {فما اسطاعوا ان يظهروه} يعلوه، استطاع استفعل من اطعت له فلذلك فتح اسطاع يسطيع وقال بعضهم استطاع يستطيع، {وما استطاعوا له نقبا قال هذا رحمة من ربي فإذا جاء وعد ربي جعله دكا} الزقه بالارض، وناقة دكاء لا سنام لها، والدكداك من الارض مثله حتى صلب من الارض وتلبد. {وكان وعد ربي حقا وتركنا بعضهم يومئذ يموج في بعض}، {حتى إذا فتحت ياجوج وماجوج وهم من كل حدب ينسلون} قال قتادة حدب اكمة. قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم رايت السد مثل البرد المحبر. قال: «رايته» .وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَاتَّبَعَ سَبَبًا} إِلَى قَوْلِهِ: {ائْتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ} وَاحِدُهَا زُبْرَةٌ وَهْيَ الْقِطَعُ {حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ} يُقَالُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْجَبَلَيْنِ، وَالسُّدَّيْنِ الْجَبَلَيْنِ {خَرْجًا} أَجْرًا {قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا} أَصْبُبْ عَلَيْهِ رَصَاصًا، وَيُقَالُ الْحَدِيدُ. وَيُقَالُ الصُّفْرُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ النُّحَاسُ. {فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ} يَعْلُوهُ، اسْتَطَاعَ اسْتَفْعَلَ مِنْ أَطَعْتُ لَهُ فَلِذَلِكَ فُتِحَ أَسْطَاعَ يَسْطِيعُ وَقَالَ بَعْضُهُمُ اسْتَطَاعَ يَسْتَطِيعُ، {وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكًّا} أَلْزَقَهُ بِالأَرْضِ، وَنَاقَةٌ دَكَّاءُ لاَ سَنَامَ لَهَا، وَالدَّكْدَاكُ مِنَ الأَرْضِ مِثْلُهُ حَتَّى صَلُبَ مِنَ الأَرْضِ وَتَلَبَّدَ. {وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ}، {حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} قَالَ قَتَادَةُ حَدَبٍ أَكَمَةٍ. قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ السَّدَّ مِثْلَ الْبُرْدِ الْمُحَبَّرِ. قَالَ: «رَأَيْتَهُ» .
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا»”اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا .“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد»”تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں ”یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔“ «صدفين» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين»(دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، ان زينب ابنة ابي سلمة حدثته، عن ام حبيبة بنت ابي سفيان، عن زينب ابنة جحش رضي الله عنهن، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها فزعا، يقول:" لا إله إلا الله ويل للعرب من شر قد اقترب فتح اليوم من ردم ياجوج وماجوج مثل هذه وحلق بإصبعه الإبهام والتي تليها، قالت: زينب ابنة جحش، فقلت: يا رسول الله انهلك وفينا الصالحون، قال: نعم إذا كثر الخبث".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا، يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الْإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا، قَالَتْ: زَيْنَبُ ابْنَةَ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے، ان سے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آ جائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کر دیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بنا کر بتلایا۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کر دئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا (تو یقیناً بربادی ہو گی)۔
Narrated Zainab bint Jahsh: That the Prophet once came to her in a state of fear and said, "None has the right to be worshipped but Allah. Woe unto the Arabs from a danger that has come near. An opening has been made in the wall of Gog and Magog like this," making a circle with his thumb and index finger. Zainab bint Jahsh said, "O Allah's Apostle! Shall we be destroyed even though there are pious persons among us?" He said, "Yes, when the evil person will increase."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 565
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3346
(1) ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔ ، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔ (2) وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔ (3) دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔ ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ (4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔ (6) قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔ (7) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔ جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔ ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔ ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔ جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ حدیث ترجمہ: ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے، ان سے زینب بنت جحش ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لائے آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آجائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کردیا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بناکر بتلایا۔ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا یارسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کردئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا۔ (تو یقینا بربای ہوگی) حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3346
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7237
حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھبرائے ہوئے نکلے، آپ کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، آپ نے فر رہے تھے۔"لا الہ الا اللہ، عربوں کے لیے اس شر سے ہلاکت ہے جو قریب آچکا ہے، آج یاجوج ماجوج کی دیواراتنی کھل چکی ہے:"آپ نے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی شہادت سے حلقہ بنایا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے، جبکہ ہم میں نیک لوگ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:7237]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ نے عربوں کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ اس وقت مسلمانوں میں ان کو اکثریت اور غلبہ حاصل تھا اور حکومت واقتدار پر وہی متمکن تھے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا، آٹے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے، بروں کی اکثریت میں نیک لوگوں کی اقلیت بھی تباہی سے بچ نہیں سکتی، کیونکہ وہ اکثریت کے آگے بند باندھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، یا ان کی کوشش رائیگاں جاتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7237
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7059
7059. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ انور سرخ تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عربوں کی تباہی اس آفت سے ہوگی جو قریب ہی آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔“ سفیان نے نوے یا سو کا اشارہ کر کے بتایا: پوچھا کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں جب بدکاری اور خباثت زیادہ بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7059]
حدیث حاشیہ: نوے کا اشارہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کے کلمے کی انگلی کی نوک اس کی جڑ پر جمائی اور سو کا اشارہ بھی اس کے قریب قریب ہے۔ برائی سے مراد زنا یا اولاد زنا کی کثرت ہے دیگر فسق وفجور بھی مراد ہیں۔ یاجوج ماجوج کی سد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنی کھل گئی تھی تو اب معلوم نہیں کتنی کھل گئی ہوگی اور ممکن ہے برابر ہوگئی ہو یا پہاڑوں میں چھپ گئی ہو اور جغرافیہ والوں کی نگاہ اس پر نہ پڑی ہو۔ یہ مولانا وحید الزماں کا خیال ہے۔ اپنے نزدیک واللہ أعلم بالصواب آمنا بما قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7059
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7135
7135. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے، کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں گھبرائے ہوئے تشریف لائے۔ آپ فر رہے تھے: ”عربوں کے لیے اس برائی کی وجہ سے تباہی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا کھل گیا ہے۔“ اور آپ نے اپنے انگوٹھے اور اسکے قریب والی انگلی کو ملا کر ایک حلقہ سا بنایا۔سیدہ زینب بنت حجش ؓا نے یہ سن کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کردیے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بدکاری بہت بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7135]
حدیث حاشیہ: ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصہ میں آباد ہے۔ اہل جغرافیہ نے تو ساری دنیا کو چھانڈالا ہے یہ ممکن ہے کہ کوئی چھوٹا سا جزیدہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر التعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔ دوسرے اس زمانہ میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو یہ دیوار ان کو کیوں کہ روک سکتی ہے؟ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد اس میں بھی بہ آسانی سوراخ ہوسکتا ہے کتنی ہی اونچی دیوار آلات کے ذریعہ سے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔ ڈائنامائٹ سے اس کو دم بھر میں گراسکتے ہیں۔ ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔ البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔ رہا یہ کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار آدمی اپنی نسل سے نہ دیکھ لے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب تک آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانہ کا جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔ آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں ہماری عمر وں کی طرح ان کی عمر یں بھی گھٹ گئی ہوں گی اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہیں کہ ان کے قدوقامت اور کان ایسے ہیں، ان کی سندیں صحیح اور قابل اعتماد نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہیں میں سے دو بڑی قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7135
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3598
3598. حضرت زینب بنت جحش ؓسے روایت ہے کہ(ایک دن) نبی کریم ﷺ ان کے ہاں گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور آپ نے فرمایا: ”لاإلٰه الا اللہ، عربوں کی اس برائی سے ہلاکت ہوگی جوبالکل قریب آلگی ہے۔ آج کے روز یاجوج وماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔“ پھر آپ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنایا۔ حضرت زینب فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہیں؟آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب خباثت زیادہ پھیل جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3598]
حدیث حاشیہ: 1۔ پہلی حدیث میں شر سے مراد وہ فتنے ہیں جو عربوں میں ظاہر ہوئے۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو فتنے ظاہر ہوئے وہ بہت المناک اور دلدوز ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یا جوج و ماجوج کی دیوار کا سوراخ دیکھا جو دو انگلیوں کےحلقے کے برابر تھا۔ یہ سوراخ بھی فتنوں کے ظاہر ہونے کی علامت ہے۔ 2۔ حدیث میں خبث سےمراد فسق و فجور اور گناہ ہیں۔ یعنی جب لوگ بہت گناہ کرنے لگیں گے تو یقینی طور پر ان کی ہلاکت قریب ہو گی کیونکہ جب خبائث کا غلبہ ہو جائے تو نیک لوگوں کی نیکیاں مغلوب ہو کر رہ جاتی ہیں۔ 3۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ فارس اور روم کے خزانے ملنے کے بعدفتنوں کا دور دورہ ہو گا کیونکہ جب فتوحات کی کثرت ہوگی تو مال و دولت کی فراوانی سے حسد و عدوات اور مخالفت و عناد پیدا ہوگا جو خونریزی اور قتل وغٖارت کے پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ 4۔ بعض شارحین نے اس فتنے سے ترک مراد لیے ہیں جنھوں نے بغداد اور دیگر بلاد اسلام میں فتنے برپا کیے جو خروج دجال تک جاری رہیں گے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3598
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7059
7059. سیدہ زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک مرتبہ نبی ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کا چہرہ انور سرخ تھا۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عربوں کی تباہی اس آفت سے ہوگی جو قریب ہی آلگی ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔“ سفیان نے نوے یا سو کا اشارہ کر کے بتایا: پوچھا کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں جب بدکاری اور خباثت زیادہ بڑھ جائے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7059]
حدیث حاشیہ: 1۔ عربوں کے ہاں نوے کا عدد اس طرح ہے کہ شہادت والی انگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ پر رکھیں، پھر انگوٹھے کو انگلی کے ساتھ اس طرح ملا دیں کہ اندر گول دائرے کا نشان بن جائے۔ 2۔ حدیث میں خباثت سے مراد فسق وفجور کی بہتات اور زنا واولاد زنا کی کثرت ہے۔ یاجوج ماجوج سے مراد وہ انتہائی شمال مشرقی علاقے کی وحشی قومیں ہیں جو پہاڑی دروں کے راستے سے یورپ اورایشاء کی مہذب قوموں پر حملہ آور ہوتی تھیں۔ ذوالقرنین نے ایک پچاس میل لمبی اور 1فٹ چوڑی دیوار بنا کر ان دروں کو پاٹ دیا تھا، جس پر چڑھا جا سکتا ہے نہ اس میں شگاف کیا جا سکتا ہے۔ قرب قیامت یہ دیوار ختم ہو جائے گی تو یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بے شمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے اور اس طرح حملہ آور ہوں گے جس طرح کوئی شکاری جانور پنجرے سے آزاد ہو کر اپنے شکار پر جھپٹتا ہے۔ یہ دونوں قومیں متحد ہوکر شورش برپا کریں گی اور ایسا قیامت کے قریب ہوگا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حملے کو قیامت کی نشانی قراردیاہے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث 7285(2901) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وہ دیوار تھوڑی سی کھل گئی تھی جو دن بدن زیادہ ہوتی جائے گی حتی کہ قیامت کے قریب وہ بالکل ختم ہوجائےگی۔ حدیث میں عرب کو اس لیے خاص کیا ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے یہی لوگ تھے اور جب فتنوں کا آغاز ہوگا تو سب سے پہلے یہی لوگ ان کا شکار ہوں گے۔ (فتح الباري: 18/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7059