صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
1M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} :
1M. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں“۔
(1b) Chapter.
حدیث نمبر: Q3326-2
Save to word اعراب English
صلصال طين خلط برمل فصلصل كما يصلصل الفخار ويقال منتن يريدون به صل كما يقال صر الباب وصرصر عند الإغلاق مثل كبكبته يعني كببته فمرت به سورة الاعراف آية 189 استمر بها الحمل فاتمته الا تسجد سورة الاعراف آية 12 ان تسجد.صَلْصَالٍ طِينٌ خُلِطَ بِرَمْلٍ فَصَلْصَلَ كَمَا يُصَلْصِلُ الْفَخَّارُ وَيُقَالُ مُنْتِنٌ يُرِيدُونَ بِهِ صَلَّ كَمَا يُقَالُ صَرَّ الْبَابُ وَصَرْصَرَ عِنْدَ الْإِغْلَاقِ مِثْلُ كَبْكَبْتُهُ يَعْنِي كَبَبْتُهُ فَمَرَّتْ بِهِ سورة الأعراف آية 189 اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ أَلَّا تَسْجُدَ سورة الأعراف آية 12 أَنْ تَسْجُدَ.
‏‏‏‏ (سورۃ الرحمن میں لفظ) «صلصال» کے معنے ایسے گارے کے ہیں جس میں ریتی ملی ہو اور وہ اس طرح سے بجنے لگے جیسے پکی ہوئی مٹی بجتی ہے۔ بعض نے کہا «صلصال» کے معنی «منتن‏.‏» یعنی بدبودار کے ہیں۔ اصل میں یہ لفظ «صل‏» سے نکلا ہے۔ فا کلمہ مکرر کر دیا یا جیسے «صرصر» سے عرب لوگ کہتے ہیں «صر الباب» یا «صر صر الباب» جب بند کرنے سے دروازے میں سے آواز نکلے جیسے «كبكبته» «كب» سے نکلا ہے۔ سورۃ الاعراف میں لفظ «فمرت به‏» کا معنی چلتی پھرتی رہی، حمل کی مدت پوری کی، (سورۃ الاعراف میں) لفظ «أن لا تسجد‏» کا معنی «أن تسجد‏.‏» کے ہیں۔ یعنی تجھ کو سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا۔ «لا» کا لفظ یہاں زائد ہے۔

حدیث نمبر: Q3326
Save to word اعراب English
قال ابن عباس: {لما عليها حافظ} إلا عليها حافظ {في كبد} في شدة خلق. ورياشا المال. وقال غيره الرياش والريش واحد، وهو ما ظهر من اللباس. {ما تمنون} النطفة في ارحام النساء. وقال مجاهد: {إنه على رجعه لقادر} النطفة في الإحليل. كل شيء خلقه فهو شفع، السماء شفع، والوتر الله عز وجل. {في احسن تقويم} في احسن خلق {اسفل سافلين} إلا من آمن {خسر} ضلال، ثم استثنى إلا من آمن {لازب} لازم. {ننشئكم} في اي خلق نشاء. {نسبح بحمدك} نعظمك. وقال ابو العالية: {فتلقى آدم من ربه كلمات} فهو قوله: {ربنا ظلمنا انفسنا}، {فازلهما} فاستزلهما. و{يتسنه} يتغير، آسن متغير، والمسنون المتغير {حمإ} جمع حماة وهو الطين المتغير. {يخصفان} اخذ الخصاف {من ورق الجنة} يؤلفان الورق ويخصفان بعضه إلى بعض {سوآتهما} كناية عن فرجهما {ومتاع إلى حين} هاهنا إلى يوم القيامة، الحين عند العرب من ساعة إلى ما لا يحصى عدده. {قبيله} جيله الذي هو منهم.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ} إِلاَّ عَلَيْهَا حَافِظٌ {فِي كَبَدٍ} فِي شِدَّةِ خَلْقٍ. وَرِيَاشًا الْمَالُ. وَقَالَ غَيْرُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ، وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ. {مَا تُمْنُونَ} النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ} النُّطْفَةُ فِي الإِحْلِيلِ. كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهْوَ شَفْعٌ، السَّمَاءُ شَفْعٌ، وَالْوِتْرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. {فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ} فِي أَحْسَنِ خَلْقٍ {أَسْفَلَ سَافِلِينَ} إِلاَّ مَنْ آمَنَ {خُسْرٍ} ضَلاَلٌ، ثُمَّ اسْتَثْنَى إِلاَّ مَنْ آمَنَ {لاَزِبٍ} لاَزِمٌ. {نُنْشِئَكُمْ} فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ. {نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ} نُعَظِّمُكَ. وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: {فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ} فَهْوَ قَوْلُهُ: {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا}، {فَأَزَلَّهُمَا} فَاسْتَزَلَّهُمَا. وَ{يَتَسَنَّهْ} يَتَغَيَّرْ، آسِنٌ مُتَغَيِّرٌ، وَالْمَسْنُونُ الْمُتَغَيِّرُ {حَمَإٍ} جَمْعُ حَمْأَةٍ وَهْوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ. {يَخْصِفَانِ} أَخْذُ الْخِصَافِ {مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ} يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ وَيَخْصِفَانِ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ {سَوْآتُهُمَا} كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجِهِمَا {وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ} هَاهُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَا لاَ يُحْصَى عَدَدُهُ. {قَبِيلُهُ} جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ‏» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد‏» کا لفظ آیا ہے «كبد‏» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون‏» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر‏» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم‏» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين‏ إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر‏» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب‏» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم‏‏ في ما لا تعلمون» ‏‏‏‏ یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك‏» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات‏» » ‏‏‏‏ وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا‏» اسی سورۃ میں «فأزلهما‏» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه‏» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ‏» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان‏» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما‏» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين‏» میں «حين‏» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين‏» کہتے ہیں۔ «قبيله‏» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔

حدیث نمبر: 3326
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" خلق الله آدم وطوله ستون ذراعا، ثم قال: اذهب فسلم على اولئك من الملائكة فاستمع ما يحيونك تحيتك وتحية ذريتك، فقال: السلام عليكم، فقالوا: السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص حتى الآن".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّى الْآنَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا پھر فرمایا کہ جا اور ان ملائکہ کو سلام کر، دیکھنا کن لفظوں میں وہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام (گئے اور) کہا، السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے ورحمۃ اللہ کا جملہ بڑھا دیا، پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی شکل اور قامت پر داخل ہو گا، آدم علیہ السلام کے بعد انسانوں میں اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Allah created Adam, making him 60 cubits tall. When He created him, He said to him, "Go and greet that group of angels, and listen to their reply, for it will be your greeting (salutation) and the greeting (salutations of your offspring." So, Adam said (to the angels), As-Salamu Alaikum (i.e. Peace be upon you). The angels said, "As-salamu Alaika wa Rahmatu-l-lahi" (i.e. Peace and Allah's Mercy be upon you). Thus the angels added to Adam's salutation the expression, 'Wa Rahmatu-l-lahi,' Any person who will enter Paradise will resemble Adam (in appearance and figure). People have been decreasing in stature since Adam's creation.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 543


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري6227عبد الرحمن بن صخرخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص بع
   صحيح البخاري3326عبد الرحمن بن صخرخلق الله آدم وطوله ستون ذراعا ثم قال اذهب فسلم على أولئك من الملائكة فاستمع ما يحيونك تحيتك وتحية ذريتك فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله فكل من يدخل الجنة على صورة آدم فلم يزل الخلق ينقص حتى الآن
   صحيح مسلم7163عبد الرحمن بن صخرخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر وهم نفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يجيبونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك قال فذهب فقال السلام عليكم فقالوا السلام عليك ورحمة الله قال فزادوه ورحمة الله قال فكل من يدخل الجنة ع
   جامع الترمذي3368عبد الرحمن بن صخرخلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس فقال الحمد لله فحمد الله بإذنه فقال له ربه يرحمك الله يا آدم اذهب إلى أولئك الملائكة إلى ملإ منهم جلوس فقل السلام عليكم قالوا وعليك السلام ورحمة الله ثم رجع إلى ربه فقال إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم فقال الله له ويداه مقبو
   صحيفة همام بن منبه59عبد الرحمن بن صخرخلق الله آدم على صورته طوله ستون ذراعا فلما خلقه قال اذهب فسلم على أولئك النفر وهم نفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فإنها تحيتك وتحية ذريتك قال فذهب فقال السلام عليكم فقالوا وعليك السلام ورحمة الله فزادوا ورحمة الله قال فكل من يدخل الجنة على صورة آدم
   مسندالحميدي1153عبد الرحمن بن صخر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3326 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3326  
حدیث حاشیہ:
چھوٹے ہوتے ہوتے اس حد کو پہنچے جس حد پر یہ امت ہے۔
ابن قتیبہ نے کہا کہ آدم بے ریش و بروت تھے، گھونگروالے بال اور نہایت خوبصورت تھے۔
قسطلانی نے کہا بہشتی سب ان ہی کی صورت اور حسن و جمال کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں جو رنگ کی سیاہی یا بدصورتی ہے وہ جاتی رہے گی۔
یا اللہ راقم کو بھی بایں صورت جنت کا داخلہ نصیب کیجےؤ اور ان سب بھائیوں مردوں عورتوں کو بھی جو بخاری شریف کا یہ مقام مطالعہ فرماتے وقت باآواز بلند آمین کہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3326   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1153  
1153- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں: کوئی بھی شخص یہ نہ کہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے کو قبیح کرے اور اس شخص کے چہرے کو قبیح کرے جو تمہارے چہرے کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1153]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی کو ایسی بددعا نہیں دینی چاہیے جس کا تعلق چہرے کے ساتھ ہو، بعض لوگ جب کسی کا عیب بیان کرتے ہیں تو اس کی شکل وصورت کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، لمبے ناک والا، اونچی پیشانی والا، لمبے دانتوں والا وغیرہ۔
اگر انسان غور کرے تو ان چیزوں کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے، جیسے اس نے چاہا بنا دیا، اس میں کسی کا کوئی کمال نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں عیب نکالنا بڑی جرٱت اور بہت بڑا جرم ہے ہےکوئی اللہ کی مثل کچھ بنانے والا کسی انسان کی شکل و صورت میں عیب نکالنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر عیب جوئی ہے۔
اس حدیث میں صرف چہرے کا ذکر ہے، اور اس سے چہرے کا محترم ہونا ثابت ہوتا ہے، جسم کے کسی بھی عضو کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے، نیز چہرے پر مارنا بھی منع ہے۔ (صحیح البخاری، صحیح مسلم)
«‏‏‏‏فـان الله خلق آدم على صورته» سے بعض کا یہ مراد لینا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے، باطل مردود ہے، بلکہ صحيح وہی ہے جو مترجم نے حدیث کا ترجمہ کیا ہے، یقینا اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1152   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7163  
حضرت ہمام بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سی احادیث لکھوائیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا:ان کا طول ساٹھ ہاتھ تھا، چنانچہ پیدا کرنے کے بعد فرمایا، جاؤ اس جماعت کو سلام کہو، وہ فرشتوں کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چنانچہ سنو وہ تمھیں کس طرح سلام کہتے ہیں وہی تمھارا اور تمھاری اولاد کا سلام ہوگا، سووہ گئے اور کہا السلام علیکم،انھوں نے کہا السلام علیک ورحمۃ اللہ اس طرح... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7163]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آدم علیہ السلام کی صورت کے بارے میں،
تفصیل كتاب البر والصلة میں گزر چکی ہے اور اسلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا بہتر ہے،
اگرچہ السلام علیکم کہنا بھی درست ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7163   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
ممکن ہے کہ آئندہ اور کم ہو جائے یہ زیادتی اور کمی ہزاروں برس میں ہوتی ہے۔
انسان اس کو کیا دیکھ سکتا ہے۔
جو لوگ اس قسم کی احادیث میں شبہ کرتے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت آدم کی صحیح تاریخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے تو معلوم نہیں کہ حضرت آدم کو کتنے برس گزر چکے ہیں۔
نہ یہ معلوم ہے کہ آئندہ دنیا کتنے برس اور رہے گی اس لئے قد وقامت کا کم ہو جانا قابل انکار نہیں۔
''خلق اللہ آدم علی صورته'' کی ضمیر آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ سکتی ہے یعنی آدم کی صور ت پر جو اللہ کے علم میں تھی۔
بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ آدم پیدائش سے اسی صورت پر تھے جس صورت پر ہمیشہ رہے یعنی یہ نہیں ہوا کہ پیدا ہوتے وقت وہ چھوٹے بچے ہوں پھر بڑے ہوئے ہوں جیسا ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے مگر یہ آیت ﴿لَیسَ کَمِثلِهِ شيئ﴾ کے خلاف ہوگا۔
واللہ أعلم بالصواب وآمنا باللہ وبرسوله صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6227   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
(1) (خلق الله آدم علی صورته)
کے دو مفہوم حسب ذیل ہیں:
٭ حضرت آدم علیہ السلام پیدائش سے اسی شکل و صورت پر تھے جس صورت پر وہ ہمیشہ رہے۔
ایسا نہیں ہوا کہ پیدائش کے وقت وہ چھوٹے ہوں پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے گئے جیسا کہ ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی ذاتی صورت پر پیدا کیا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی دوسرے کو مارے تو اس کے چہرے پر مارنے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔
(مسند أحمد: 251/2)
اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
چہروں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ آدم کو رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔
(السنة لابن أبي عاصم، حدیث: 517)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم تائید میں پیش کی جا سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''صورة الرحمٰن'' کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد صفت رحمٰن ہے۔
(فتح الباري: 6/11)
لیکن یہ طریقہ اسلاف کے منہج کے خلاف ہے۔
سلف کے نزدیک کسی قسم کی تاویل کرنے تکییف اور تمثیل، یعنی کیفیت بیان کرنے یا مخلوق کی صورت کے مشابہ قرار دینے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے صفت صورت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
(فتح الباري: 226/5)
اللہ تعالیٰ کی توحید اسماء و صفات کے متعلق مکمل بحث ہم نے آگے کتاب التوحید میں کی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلام کی ابتدا ثابت کی ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا۔
بہرحال بوقت ملاقات ''السلام علیکم'' سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہے۔
اگر ملنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمے میں محبت و مسرت اور اکرام و احترام کا پورا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف نہیں تو یہ کلمہ اعتماد و خیر سگالی کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے ذریعے سے ہر ایک دوسرے کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور ہمارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6227   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.