ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب زبیری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جبرائیل علیہ السلام نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا، لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کا اظہار کرتا رہا، تاآنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔“
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle said, "Gabriel read the Qur'an to me in one way (i.e. dialect) and I continued asking him to read it in different ways till he read it in seven different ways."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 442
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3219
حدیث حاشیہ: قرآن مجید کے سات قراتوں پر اشارہ ہے۔ جن کا تفصیلی ثبوت صحیح روایات و احادیث سے ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں مختلف مقامات کی زبان کا اختلاف ہوتا ہے۔ عرب میں ہر قبیلہ ایک الگ دنیا میں رہتا تھا، جن میں محاورے بلکہ زیر، زبر تک کے فرق کو انتہائی درجے میں ملحوظ رکھا جاتا تھا، مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید اگرچہ ایک ہی ہے۔ لیکن قرات کے اعتبار سے خود اللہ پاک نے اس کی سات قراتیں قرار دیں ہیں۔ اس حدیث کے یہاں لانے سے حضرت جبرئیل ؑ کا وجود اور ان کے مختلف کارنامے بیان کرنا مقصود ہے۔ خاص طور پر وحی لانے کے لیے یہی مشہور فرشتہ مقرر ہے۔ جیسا کہ مختلف آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید کی قرات سبعہ پر امت کا اتفاق ہے۔ متداول اور مشہور قرات یہی ہے جو امن میں معمول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3219
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3219
حدیث حاشیہ: 1۔ فن قراءت سے ناآشنا لوگ کہتے ہیں کہ قراءت سبعہ خاکم بدہن قراء حضرات کی ”بدمعاشی“ ہے۔ ہمارے نزدیک فن قراءت کے ساتھ یہ سنگین قسم کا مذاق ہے۔ اس سلسلے میں دوباتوں پر علماء کا اتفاق ہے۔ قرآن کریم کوحروف سبعہ سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔ سبعہ احرف سے مراد ان سات قائمہ کی قراءت ہرگز نہیں جو فن قراءت میں مشہور ہوئے ہیں کیونکہ پہلا پہلا شخص جس نے ان سات قر اءتوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیا وہ ابن مجاہد ہے جس کا تعلق چوتھی صدی ہجری سے ہے۔ 2۔ واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج زیل قاعدہ ہے۔ جو قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ وہ موافقت بوجہ ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو، خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو، نیز وہ متواتر سند سے ثابت ہو۔ اس اصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراء ت سے صحیحہ اور ان احرف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن کریم نازل ہوا۔ مسلمانوں کو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور اگرتینوں شرائط میں سے کسی میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذ، ضعیف یا باطل ہوگی۔ (النشر 9/1) حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قراءت متواترہ کی گنجائش موجود ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قراءت متواترہ کے پڑھنے کا امکان موجود ہے اور یہ ساری قراءات حضرت عثمان ؓ کے اطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث میں حضرت جبریل ؑ اوران کے مختلف کارناموں کو ثابت کیا ہے، خاص طور پر وحی لانے کے لیے بھی یہی فرشتہ مقررہے جیسا کہ متعدد اورمختلف احادیث سے ثابت ہے، واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3219
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4991
4991. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے سیدنا جبریل ؑ نے ایک قراءت کے مطابق قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے درخواست کی۔ اور زیادہ محاوروں سی پڑھنے کا مطالبہ کرتا رہا وہ پڑھاتے رہے حتیٰ کہ وہ سات حروف پر پہنچے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4991]
حدیث حاشیہ: 1۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ اس سلسلے میں میری امت پر آسانی کریں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1904(820) ایک دوسری روایت میں ہے کہ میری امت اس امر کی طاقت نہیں رکھتی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1906(821) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ مجھے ایک فرشتے نے کہا کہ ایک حرف سے زیادہ پڑھنے کی درخواست کریں، چنانچہ مجھے سات حروف کے مطابق پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ (سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1477) یہ حدیث محدثین کے ہاں "سبعة أحرف" کے نام سے مشہور ہے اور ائمہ حدیث نے اس حدیث کو اپنی اپنی تالیفات میں ذکر کر کے اسے متواتر کا درجہ دیا ہے، چنانچہ اس حدیث کو بائیس(22) سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیان کرتے ہیں۔ اس متواتر حدیث کے کسی بھی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبادت موجود نہیں جو سبعۃ احرف کی مراد کو متعین کرے جبکہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخر نہیں کرتے۔ اس کی غالباً یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے نزدیک سبعۃ احرف کا مفہوم متعین اور اس قدر واضح تھا کہ کسی کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اور نہ وہ اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی کے محتاج ہی تھے۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی اشکال پیدا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مشکل کا حل معلوم کرتے۔ حالانکہ یہ حضرات قرآن کریم کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعۃ احرف کے متعلق اگر کسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراءت سنی تو قرآن کریم میں اختلاف کے واقع ہونے کے خوف سے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام وجوہ قراءت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہیں۔ ان میں کسی انسانی کوشش و کاوش کا کوئی دخل نہیں ہے، پھر ان وجوہ کا اختلاف تناقض و تضاد کا نہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کا ہے۔ اس تنوع کے بےشمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراءت میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ علمائے امت نے ان قراءت کو یاد کرنے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ علم القراءت ایک مستقل فن کا شکل اختیار کر گیا ہے۔ 3۔ ہمارے رجحان کے مطابق متواتر قراءات وحی الٰہی کا حصہ ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا قرآن کریم کا انکار کرنا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4991