ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباس ساعدی نے اور ان سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غزوہ تبوک میں شریک تھے۔ ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک چادر بطور خلعت کے اور ایک تحریر کے ذریعہ اس کے ملک پر اسے ہی حاکم باقی رکھا۔
Narrated Abu Humaid As-Saidi: We accompanied the Prophet in the Ghazwa of Tabuk and the king of 'Aila presented a white mule and a cloak as a gift to the Prophet. And the Prophet wrote to him a peace treaty allowing him to keep authority over his country.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 387
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3161
حدیث حاشیہ: یہ روایت ابن اسحاق میں یوں ہے کہ جب آپ ﷺ تبوک کو جارہے تھے، تو یوحنا بن روبہ ایلہ کا حاکم آپ کی خدمت میں آیا۔ اس نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور آپ نے اس سے صلح کرکے سند امان لکھ کر دے دی، اس سے ترجمہ باب یوں نکلا کہ آپ نے یوحنا سے صلح کی تو سارے ایلہ والے امن اور صلح میں آگئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3161
حدیث حاشیہ: 1۔ "ایلہ" حجاز اور شام کی سرحد پر ایک قدیم شہر آباد ہے جسے دورحاضر میں مدینہ عقبہ کہا جاتا ہے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کا ہدیہ قبول کرنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان سے مصالحت کرلی، نیز آپ کا اس کو سمندری علاقے کی حکومت لکھ کردینا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بادشاہ اور رعایا سب اس مصالحت میں شامل ہیں کیونکہ بادشاہ کی مصالحت، رعایا کی مصالحت قرارپاتی ہے۔ لوگوں کی قوت بادشاہ کے ساتھ ہوتی ہے اور رعایا کے تمام لوگ بادشاہ کے ماتحت ہوتے ہیں، لہذا وہ ان سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور نہ وہ بادشاہ ہی سے علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ 3۔ لفظ لھم میں جمع کی ضمیر بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ تمام رعایا اس میں شامل ہے اگرچہ ایک روایت میں مفرد کی ضمیر ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1481) تاہم اس سے بھی مدعا واضح ہے کہ بادشاہ کی مصالحت باقی تمام رعایا کی مصالحت ہوگی۔ 4۔ دراصل امام بخاری ؒنے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں ایلہ کے بادشاہ اور اس کے رعایا کے لیے امن کی صراحت ہے۔ اسے ابن اسحاق نے اپنی تالیف السیرۃ میں نقل کیاہے۔ اس کے الفاظ ہیں: جب رسول اللہ ﷺ تبوک پہنچے تو آپ کے پاس ایلہ کا بادشاہ آیا تو اس نے آپ کو جزیہ پیش کیا اور آپ سے مصالحت کی تو رسول اللہ ﷺنے ان الفاظ میں پروانہ لکھ کر اس کے حوالے کیا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم”یہ پروانہ امن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ایلہ کے بادشاہ اور اس کی رعایا کے لیے ہے۔ “(فتح الباري: 321/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3161