قال: ابو حميد، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إني متعجل إلى المدينة فمن اراد ان يتعجل معي فليعجل".قَالَ: أَبُو حُمَيْدٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيُعَجِّلْ".
ابوحمید نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں مدینہ جلدی پہنچنا چاہتا ہوں اس لیے اگر کوئی شخص میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے تو چلے۔“
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال: اخبرني ابي، قال: سئل اسامة بن زيد رضي الله عنهما، كان يحيى يقول وانا اسمع، فسقط عني عن مسير النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، قال:" فكان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص، والنص فوق العنق".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يَحْيَى يَقُولُ وَأَنَا أَسْمَعُ، فَسَقَطَ عَنِّي عَنْ مَسِيرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَ:" فَكَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ، وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے سفر کی رفتار کے متعلق پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کس چال پر چلتے، یحییٰ نے کہا عروہ نے یہ بھی کہا تھا (کہ میں سن رہا تھا) لیکن میں اس کا کہنا بھول گیا۔ غرض اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا تیز چلتے جب فراخ جگہ پاتے تو سواری کو دوڑا دیتے۔ «نص» اونٹ کی چال جو «عنق.» سے تیز ہوتی ہے۔
Narrated Hisham's father: Usama bin Zaid was asked at what pace the Prophet rode during Hajjat-ul-Wada` "He rode at a medium pace, but when he came upon an open way he would go at full pace."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 243
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1923
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔` عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔ ہشام کہتے ہیں: «نص»، «عنق» سے بھی زیادہ تیز چال کو کہتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1923]
1923. اردو حاشیہ: تابعین کرام اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں اس مسئلے کا مذاکرہ دلیل ہے۔خیر القرون کے یہ حضرات رسول اللہ ﷺ کے ایک ایک فعل کے امین اور اس کے قائل وفاعل تھے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1923
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3054
´کمزور اور ضعیف لوگوں کو قربانی کے دن نماز فجر منیٰ میں پڑھنے کی رخصت کا بیان۔` عروہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا، اور میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے لوٹتے وقت کیسے چل رہے تھے؟ تو انہوں نے کہا: اپنی اونٹنی کو عام رفتار سے چلا رہے تھے، اور جب خالی جگہ پاتے تو تیز بھگاتے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3054]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث نمبر: 3021۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3054
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3017
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔` اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے چلتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم «عنق» کی چال (تیز چال) چلتے، اور جب خالی جگہ پاتے تو «نص» کرتے یعنی دوڑتے۔ وکیع کہتے ہیں کہ «عنق» سے زیادہ تیز چال کو «نص» کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3017]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) عنق اس درمیانی رفتار کو کہتے ہیں جو بہت آہستہ بھی نہ ہو اور زیادہ تیز بھی نہ ہو۔
(2) نص اونٹ کی تیز رفتار کو کہتے ہیں۔
(3) بھیڑ بھاڑ کے مقامات پر تیز رفتاری مناسب نہیں کیونکہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے اور حادثے کا خطرہ ہوتا ہے۔
(4) جانور سے اس کی طاقت کے مطابق ضرورت کے مطابق زیادہ کام بھی لیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہے کہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کا م لینے کی کوشش کی جائے بلکہ اس کے آرام کا بھی خیال رکھنا جاہیئے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3017
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1666
1666. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں حضرت اسامہ بن زید ؓ سے دریافت کیا گیا کہ حجۃ الوداع میں عرفات سے واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی رفتار کیسی تھی؟انھوں نے فرمایا کہ عام رفتار سے چلتے تھے اور جب میدان آجاتا تو تیز ہوجاتے۔ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: نص اس تیز رفتاری کو کہتے ہیں جو عام رفتار سے زیادہ ہو۔ فَجْوَةٍ وسیع میدان کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسا کہ ركوة کی جمع (ركوات اور) ركاء ہے۔ مَنَاصٍ کے معنی ہیں۔ بھاگنے کا وقت نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1666]
حدیث حاشیہ: تو اس سے نص مشتق نہیں جو حدیث میں مذکور ہے، یہ تو ایک ادنی بھی جس کی عربیت سے ذرا سی استعداد ہو سمجھ سکتا ہے کہ مناص کو نص سے کیا علاقہ، نص مضاعف ہے اور مناص معتل ہے۔ اب یہ خیال کرنا کہ امام بخاری ؒ نے مناص کو نص سے مشتق سمجھا ہے اس لیے یہاں اس کے معنی بیان کردیئے جسے عینی نے نقل کیا ہے یہ بالکل کم فہمی ہے، اصل یہ ہے کہ اکثر نسخوں میں یہ عبارت ہی نہیں ہے اور جن نسخوں میں موجود ہے ان کی توجیہ یوں ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو کم استعدادی سے یہ وہم ہوا ہوگا کہ مناص اور نص کا مادہ ایک ہی ہے امام بخاری نے مناص کی تفسیر کرکے اس وہم کا رد کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1666
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1666
1666. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں حضرت اسامہ بن زید ؓ سے دریافت کیا گیا کہ حجۃ الوداع میں عرفات سے واپسی کے وقت رسول اللہ ﷺ کی رفتار کیسی تھی؟انھوں نے فرمایا کہ عام رفتار سے چلتے تھے اور جب میدان آجاتا تو تیز ہوجاتے۔ (راوی حدیث) حضرت ہشام نے کہا: نص اس تیز رفتاری کو کہتے ہیں جو عام رفتار سے زیادہ ہو۔ فَجْوَةٍ وسیع میدان کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع فجوات اور فجاءہے جیسا کہ ركوة کی جمع (ركوات اور) ركاء ہے۔ مَنَاصٍ کے معنی ہیں۔ بھاگنے کا وقت نہیں رہا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1666]
حدیث حاشیہ: (1) مزدلفہ میدان عرفات سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ عرفات سے غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ واپسی ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھی جاتی ہیں، اس لیے عرفات سے واپسی مزدلفہ لوٹتے وقت جلدی کی جاتی ہے اور یہ جلدی قلت وقت کی بنا پر ہوتی ہے، البتہ وادی محسر میں آ کر رفتار مزید تیز کر دی جاتی ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو عرفات سے واپسی کے وقت اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! آرام اور سکون سے چلو، بھاگنا، دوڑنا کوئی نیکی نہیں۔ جب بھیڑ ختم ہو جاتی اور میدانی علاقہ آ جاتا تو سواری کو کچھ تیز کر دیا جاتا۔ (3) فجوة کی لغوی بحث امام بخاری ؒ کی طرف سے ہے۔ بعض لوگوں نے نص اور مناص کا مادہ ایک قرار دیا ہے، حالانکہ نص مضاعف ثلاثی ہے اور مناص اجوف ہے، اس کے معنی فرار کے ہیں۔ امام بخاری نے دفع توہم کے لیے لغوی تشریح کر دی ہے کہ انہیں لفظی تشاکل کی وجہ سے ایک مادہ شمار نہ کیا جائے۔ (فتح الباري: 655/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1666
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4413
4413. حضرت عروہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میری موجودگی میں حضرت اسامہ بن زید ؓ سے پوچھا گیا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ کی سواری کی رفتار کیسی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ (عام طور پر) درمیانی رفتار تھی اور جب کشادہ راستہ مل جاتا تو اسے تیز چلاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4413]
حدیث حاشیہ: عَنَق اور نَصّ اونٹ کی چال کے نام ہیں۔ اونٹ کی رفتار کا اندازہ اس کی گردن سے ہوتا ہے، اس لیے درمیانی رفتارکو عَنَق کہتے ہیں۔ اوراس کی تیز رفتاری کو نَصّ کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس حدیث میں بھی حجۃ الوداع کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4413