صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
78. بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الرَّمْيِ:
78. باب: تیر اندازی کی ترغیب دلانے کے بیان میں۔
(78) Chapter. Exhortation to archery (i.e., arrow throwing).
حدیث نمبر: Q2899
Save to word اعراب English
وقول الله تعالى: {واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم}.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ الانفال میں) «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله وعدوكم» اور ان (کافروں) کے مقابلے کے لیے جس قدر بھی تم سے ہو سکے سامان تیار رکھو، قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے، جس کے ذریعہ سے تم اپنا رعب رکھتے ہو اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں پر۔

حدیث نمبر: 2899
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، قال: سمعت سلمة بن الاكوع رضي الله عنه، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم على نفر من اسلم ينتضلون، فقال: النبي صلى الله عليه وسلم" ارموا بني إسماعيل فإن اباكم كان راميا ارموا، وانا مع بني فلان، قال: فامسك احد الفريقين بايديهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لكم لا ترمون، قالوا: كيف نرمي وانت معهم؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: ارموا فانا معكم كلكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا ارْمُوا، وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ، قَالَ: فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْمُوا فَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، انہوں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبیلہ بنو اسلم کے چند لوگوں پر گزر ہوا جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسماعیل علیہ السلام کے بیٹو! تیر اندازی کرو کہ تمہارے بزرگ دادا اسماعیل علیہ السلام بھی تیرانداز تھے۔ ہاں! تیر اندازی کرو، میں بنی فلاں (ابن الاورع رضی اللہ عنہ) کی طرف ہوں۔ بیان کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو (مقابلے میں حصہ لینے والے) دوسرے ایک فریق نے ہاتھ روک لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات پیش آئی، تم لوگوں نے تیر اندازی بند کیوں کر دی؟ دوسرے فریق نے عرض کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فریق کے ساتھ ہو گئے تو بھلا ہم کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تیر اندازی جاری رکھو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Salama bin Al-Akwa`: The Prophet passed by some people of the tribe of Bani Aslam who were practicing archery. The Prophet said, "O Bani Isma`il ! Practice archery as your father Isma`il was a great archer. Keep on throwing arrows and I am with Bani so-and-so." So one of the parties ceased throwing. Allah's Apostle said, "Why do you not throw?" They replied, "How should we throw while you are with them (i.e. on their side)?" On that the Prophet said, "Throw, and I am with all of you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 148


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2899سلمة بن عمروارموا بني إسماعيل فإن أباكم كان راميا ارموا وأنا مع بني فلان فأمسك أحد الفريقين بأيديهم قال رسول الله ما لكم لا ترمون قالوا كيف نرمي وأنت معهم قال النبي ارموا فأنا معكم كلكم
   صحيح البخاري3507سلمة بن عمروارموا بني إسماعيل فإن أباكم كان راميا وأنا مع بني فلان لأحد الفريقين فأمسكوا بأيديهم قال ما لهم قالوا وكيف نرمي وأنت مع بني فلان قال ارموا وأنا معكم كلكم
   صحيح البخاري3373سلمة بن عمروارموا بني إسماعيل فإن أباكم كان راميا وأنا مع بني فلان فأمسك أحد الفريقين بأيديهم قال رسول الله ما لكم لا ترمون فقالوا نرمي وأنت معهم قال ارموا وأنا معكم كلكم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2899 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2899  
حدیث حاشیہ:
سیرۃ طیبہ کے مطالعہ کرنے والوں پر واضح ہے کہ آپﷺ نے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ سپاہی بنانے کی کوشش فرمائی اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کے لئے شب و روز تلقین فرماتے رہے جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوا کہ عربوں کے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ بھی بڑے زبردست سپاہی تھے اور نیزہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔
آج کل بندوق‘ توپ‘ ہوائی جہاز اور جتنے بھی آلات حرب وجود میں آچکے ہیں وہ سب اسی ذیل ہیں۔
ان سب میں مہارت پیدا کرنا سب کو اپنانا یہ خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر ان کا سیکھنا فرض ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2899   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2899  
حدیث حاشیہ:

سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تمام صحابہ کرام ؓ کو سپاہیانہ اور مجاہدانہ زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہو اکہ حضرت اسماعیل ؑبھی بہت بڑے سپاہی تھے اور نیز ہ بازی ہی ان کا مشغلہ تھا۔
آج کل بندوق،توپ،میزائل الغرض جتنے بھی جنگی ہتھیار وجود میں آچکے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔
ان سب میں مہارت پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اس رمی کو ہی طاقت قراردیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث 4946(1917)
چنانچہ آج ہر حکومت کو رمی پر فخر ہے۔
جس حکومت کو رمی جیسی پوری قوت حاصل ہے، اس کی دوسروں پر برتری ہے، بم، ایٹم بم اور میزائل وغیرہ سب کو رمی شامل ہے اور سب آلات جنگ اسی رمی کے ضمن میں آتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2899   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3373  
3373. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا گزر قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس سے ہوا جو تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل ؑ! تیراندازی کرو کیونکہ تمھارے باپ بھی بڑے تیر اندازتھے۔ اور میں فلاں فریق کی طرف ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ سن کر دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا، تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کس طرح تیراندازی کریں جبکہ آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا: تیراندازی کرو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3373]
حدیث حاشیہ:
روایت میں سیدنا اسماعیل ؑ کا ذکر ہے۔
باب اورحدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ دادا کے اچھے کاموں کو فخر کے ساتھ اپنانا بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3373   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3507  
3507. حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس تشریف لائے جو بازار میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے فرزندان اسماعیل! تیر اندازی کرو کیونکہ تمہارا باپ (حضرت اسماعیل ؑ) بھی تیر انداز تھا اور میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں۔ یہ فریقین میں سے کسی ایک کوکہا۔ ان لوگوں نے تیر اندازی سے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ نے فرمایا: انھیں کیاہوگیا ہے؟ وہ عرض کرنے لگے: ہم کیسے تیر اندازی کریں جبکہ آپ فلاں قبیلے کے ہمراہ ہیں؟ آپ نےفرمایا: تم تیر اندازی کرو۔ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3507]
حدیث حاشیہ:
یہ تیر اندازی کرنے والے باشندگان یمن سے تھے۔
رسول کریم ﷺ نے نسب کے لحاظ سے انہیں حضرت اسماعیل ؑ کی طرف منسوب فرمایا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہواکہ اہل یمن اولاد اسماعیل ؑ ہیں۔
اس حدیث کی روسے آج کل بندوق کی نشانہ بازی اور دوسرے جدید اسلحہ کا استعمال سیکھنا مسلمانوں کے لیے اسی بشارت میں داخل ہے، مگر یہ فساد اور غارت گری اور بغاوت کے لیے نہ ہو۔
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3507   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3373  
3373. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا گزر قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس سے ہوا جو تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل ؑ! تیراندازی کرو کیونکہ تمھارے باپ بھی بڑے تیر اندازتھے۔ اور میں فلاں فریق کی طرف ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ سن کر دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا، تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کس طرح تیراندازی کریں جبکہ آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا: تیراندازی کرو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3373]
حدیث حاشیہ:

جزیرہ عرب کے باشندے بنواسماعیل اورشام و فلسطین کے باشندے بنو سرائیل ہیں۔
حضرت اسماعیل ؑ نے یمن کے ایک جرہم نامی قبیلے سے عربی زبان سیکھی اور آپ بہترین تیر ساز اور تیرانداز تھے۔
عنوان میں حضرت اسماعیل ؑ کا ذکر تھا اور حدیث بھی آپ کے ذکر خیر پر مشتمل ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ داداکے اچھے کاموں کو عمل میں لانا باعث تعریف ہے باتوں میں "پدرم سلطان بود" کہنا قابل مذمت ہے۔

ذکر کردہ آیت کے آخر میں ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ رسول اللہ بن تھے آپ کے ابراہیمی شریعت دے کر بنو جرہم کی طرف بھیجا گیا۔
رسول اللہ ﷺ انھی کی اولاد سے ہیں آپ کا صادق الوعدہ ہونا مشہور تھا۔
اللہ سے پابندوں سے جو وعدہ کیا اسے ضرور پورا کرتے خواہ اس وعدہ وفائی میں جان تک قربان کرنا پڑے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3373   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3507  
3507. حضرت سلمہ بن اکوع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس تشریف لائے جو بازار میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے فرزندان اسماعیل! تیر اندازی کرو کیونکہ تمہارا باپ (حضرت اسماعیل ؑ) بھی تیر انداز تھا اور میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں۔ یہ فریقین میں سے کسی ایک کوکہا۔ ان لوگوں نے تیر اندازی سے اپنے ہاتھ روک لیے۔ آپ نے فرمایا: انھیں کیاہوگیا ہے؟ وہ عرض کرنے لگے: ہم کیسے تیر اندازی کریں جبکہ آپ فلاں قبیلے کے ہمراہ ہیں؟ آپ نےفرمایا: تم تیر اندازی کرو۔ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3507]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے تھے کہ حارثہ بن عمرو کا نسب اہل یمن سے متصل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم سے فرمایاتھا:
اے ا ولاد اسماعیل!تم تیر اندازی کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اہل یمن بھی حضررت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن باب نزل القرآن بلسان قریش قبل الحدیث: 4984)
کیونکہ بنو اسلم اہل یمن سے ہیں۔

اس استدلال پر اعتراض ہوتا ہے کہ بنو اسلم کا یمن سے ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ تمام اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہوں۔
بہرحال قبیلہ ربیعہ اور مضر کا نسب حضرت اسماعیل ؑ سے ملتا ہے۔
اس پر تمام علماء کااتفاق ہے۔
تمام اہل یمن کانسب قحطان تک یقینی ہے، اس کے آگے اختلاف ہے، البتہ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ ہے کہ تمام اہل یمن حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد سے ہیں۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 4987)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3507   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.