35. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المائدہ میں) یہ فرمانا ”مسلمانو! جب تم میں کوئی مرنے لگے تو آپس کی گواہی وصیت کے وقت تم میں سے (یعنی مسلمانوں میں سے یا عزیزوں میں سے) دو معتبر شخصوں کی ہونی چاہئے یا اگر تم سفر میں ہو اور وہاں تم موت کی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو غیر ہی یعنی کافر یا جن سے قرابت نہ ہو دو شخص سہی (میت کے وارثوں) ان دونوں گواہوں کو عصر کی نماز کے بعد تم روک لو اگر تم کو (ان کے سچے ہونے میں شبہ ہو) تو وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی کے عوض دنیا کمانا نہیں چاہتے گو جس کے لیے گواہی دیں وہ اپنا رشتہ دار ہو اور نہ ہم اللہ واسطے گواہی چھپائیں گے، ایسا کریں تو ہم اللہ کے قصوروار ہیں، پھر اگر معلوم ہو واقعی یہ گواہ جھوٹے تھے تو دوسرے وہ دو گواہ کھڑے ہوں جو میت کے نزدیک کے رشتہ دار ہوں (یا جن کو میت کے دو نزدیک کے رشتہ داروں نے گواہی کے لائق سمجھا ہو) وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے اور ہم نے کوئی ناحق بات نہیں کہی، ایسا کیا ہو تو بیشک ہم گنہگار ہوں گے۔ یہ تدبیر ایسی ہے جس سے ٹھیک ٹھیک گواہی دینے کی زیادہ امید پڑتی ہے یا اتنا تو ضرور ہو گا کہ وصی یا گواہوں کو ڈر رہے گا ایسا نہ ہو ان کے قسم کھانے کے بعد پھر وارثوں کو قسم دی جائے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کا حکم سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو (راہ پر) نہیں لگاتا“۔
(35) Chapter. The Statement of Allah: "O you who believe! When death approaches any of you, and you make a bequest, (then take) the testimony of two just men of your own folk or two others from outside... (up to)... Allah guides not the people who are Al-Fasiqun (the rebellious and disobedient)." (V.5:106-108)
(مرفوع) 2 وقال لي علي بن عبد الله، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا ابن ابي زائدة، عن محمد بن ابي القاسم، عن عبد الملك بن سعيد بن جبير، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" خرج رجل من بني سهم مع تميم الداري، وعدي بن بداء، فمات السهمي بارض ليس بها مسلم، فلما قدما بتركته فقدوا جاما من فضة مخوصا من ذهب، فاحلفهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم وجد الجام بمكة، فقالوا: ابتعناه من تميم، وعدي، فقام رجلان من اوليائه، فحلفا لشهادتنا احق من شهادتهما، وإن الجام لصاحبهم، قال: وفيهم نزلت هذه الآية يايها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر احدكم الموت سورة المائدة آية 106".(مرفوع) 2 وقَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ، فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا مِنْ ذَهَبٍ، فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ، فَقَالُوا: ابْتَعْنَاهُ مِنْ تَمِيمٍ، وَعَدِيٍّ، فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَائِهِ، فَحَلَفَا لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا، وَإِنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، قَالَ: وَفِيهِمْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ سورة المائدة آية 106".
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے ‘ کہا ہم سے ابن ابی زائدہ نے ‘ انہوں نے محمد بن ابی القاسم سے ‘ انہوں نے عبدالملک بن سعید بن جبیر سے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ کہا ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے انہوں نے کہا بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر کو نکلا ‘ وہ ایسے ملک میں جا کر مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ یہ دونوں شخص اس کا متروکہ مال لے کر مدینہ واپس آئے۔ اس کے اسباب میں چاندی کا ایک گلاس گم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم کھانے کا حکم فرمایا (انہوں نے قسم کھا لی) پھر ایسا ہوا کہ وہ گلاس مکہ میں ملا، انہوں نے کہا ہم نے یہ گلاس تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ اس وقت میت کے دو عزیز (عمرو بن العاص اور مطلب کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ یہ ہماری گواہی تمیم اور عدی کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے ‘ یہ گلاس میت ہی کا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم» آخر آیت تک۔
Ibn 'Abbas (ra) said, "A man from the tribe of Bani Sahm went out in the company of Tamim Ad-Dari and 'Adi bin Badda'. The man of Bani Sahm died in a land where there was no Muslim. When Tamim and 'Adi returned conveying the property of the deceased, they claimed that they had lost a silver bowl with gold engraving. Allah's Messenger (saws) made them take an oath (to confirm their claim), and then the bowl was found in Makkah with some people who claimed that they had bought it from Tamim and 'Adu, Then two witnesses from the relatives of the deceased got up and swore that their witnesses were more valid than the witnesses of 'Adi and Tamim, and that the bowl belonged to their deceased fellow. So, this verse was revealed in connection with this case ; 'O you who believe! When death approached any of you ...'," (V 5:106)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 39
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2780
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ وصیت پر گواہی ثبت ہونی چاہیے تاکہ اختلاف کے وقت اسے بروئے کار لایا جا سکے۔ (2) آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ دوران سفر میں وصیت کے موقع پر اگر مسلمان عادل گواہ نہ مل سکیں تو ایسے حالات میں کفار کی گواہی پر اعتبار کیا جا سکتا ہے جبکہ عام حالات میں گواہی کے لیے اسلام اور عدالت شرط ہے۔ اگر کسی ثبوت کی بنا پر کفار کی گواہی کے متعلق شک پڑ جائے تو ان سے برتر گواہوں کی گواہی سے، پہلے گواہوں کی گواہی کالعدم ہو جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہی ہر حالت میں ٹھیک ٹھیک اور سچی ہونی چاہیے۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت تمیم داری مسلمان ہوئے تو انہیں اس گناہ کا احساس ہوا۔ وہ میت کے اہل خانہ کے پاس گئے اور اعتراف جرم کیا، نیز پانچ سو درہم ادا کر کے اس نقصان کی تلافی کی اور بتایا کہ باقی پانچ سو درہم میرے ساتھی کے پاس ہیں۔ (فتح الباري: 502/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2780
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3606
´سفر میں کی گئی وصیت کے سلسلہ میں ذمی کی گواہی کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ نکلا تو سہمی ایک ایسی سر زمین میں مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا، جب وہ دونوں اس کا ترکہ لے کر آئے تو لوگوں نے اس میں چاندی کا وہ گلاس نہیں پایا جس پر سونے کا پتر چڑھا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قسم دلائی، پھر وہ گلاس مکہ میں ملا تو ان لوگوں نے کہا: ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے تو اس سہمی کے اولیاء میں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور ان دونوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ معتبر ہے ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3606]
فوائد ومسائل: فائدہ: اس مرنے والے سہمی کا نام بدیل بن ابی ماریہ ہے اور اس کے دونوں ساتھی اس وقت نصرانی تھے۔ جو بعد میں مسلمان ہوئے رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لے آئے۔ اور تمیم داری نے اسلام قبول کرلیا۔ تو اس خیانت کو بہت بڑا گناہ جانا پھر وہ سہمی کے وارثوں کے پاس گئے۔ اور پوری خبر بتائی اور انہیں اپنے حصے کے پانچ سو درہم ادا کئے۔ یہ بھی بتایا کہ باقی پانچ سو درہم عدی بن بداء کے پاس ہیں۔ ان سے بھی پانچ سو لیے گئے۔ (فتح الباري۔ کتاب الوصایا باب قول اللہ عزوجل: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ...............الخ 501تا 502)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3606